ایک بہت بڑی حقیقت اور نا شناختہ روداد موت ہے۔موت ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، انسان اپنی حیات کے ابتدا ئی ایام سے ہی موت کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش میں ہے ،جستجو کا یہ سفر ابھی نا تمام ہے۔مختلف مذاہب نے کوشش کی ہے کہ اس حقیقت کو انسانیت کیلئے واضح کریں۔ چنانچہ سائنسدان کیلئے واضح کریں۔چنانچہ سائنسدان کیلئے یہ حقیْت ابھی تک پوشیدہ ہے،لیکن بعض انسانوں کے ساتھ کچھ واقیعات رونما ہوئے ہیں جن کو اصولی طور پر موت کے قریب کا تجربہ کہا جاتا ہے،یعنی یہ روح کا انسانی جسم سے الگ ہو کر مختلف عوالم کی سیر کرنا !ان تجربات میں ہوتا یہ ہے کہ روح کا تعلق مادی جسم سے سست ہو جاتا ہے۔اس سستی کے نتیجے میں روح کو آزادی مل جاتی ہے اور وہ ایسے مناظر دیکھ سکتی ہے جو اس سے پہلے اس کے لیے ممکن نا تھے،گزشتہ سالوں سے مغربی ساٖئنسدانوں کی جستجو اس حقیقت کے بارے میں بڑھ گئی ہے۔ یقینا آپ نے بھی ایسے لوگوں کی داستان سنی یا پڑھی ہو گی جو موت کے قریب جا کر پلٹ آئے ہیں۔
Teen Minat Qiyamat men /تین منٹ قیامت میں/Daily book reading part 1 in Urdu |
Teen Minat Qiyamat men /تین منٹ قیامت میں/Daily book reading part 1 in Urdu |
مثال کے طور پر ہارٹ اٹیک کے بعد کچھ لوگوں کی روح جسم سے نکلنے
کے بعد کسی حادثہ یا Shock کی وجہ
سے دوبارہ پلٹ آتی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو بہت سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتا جارہا ہے
کہ موت کے نزدیک کا تجربہ ( Near Death Experience) یا
اس کا مخفف NDE کیا ہے؟
ا بعض ماہرین (NDE) کو دماغ
کی غیر معمولی فعالیت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کیفیت قرار دیتے ہیں جو موت کے
قریبی لمحات میں پائی جاتی ہے اور وہم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے
کہ ہارٹ اٹیک کے نتیجہ میں آکسیجن دماغ تک نہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے دماغی سیلز
کا کیمیائی توازن بگڑ جاتا ہے ۔ ان ماہرین کے جواب میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا
جاتا ہے کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ذہن کی فعالیت اور حرکت کی GG 1 ٹیسٹ
کے ذریعہ پیمائش کی جا سکتی ہے۔ بہت سے افراد جو موت کے قریب کا تجربہ رکھتے ہیں،
ان کے IGG ٹیسٹ میں
ایک سیدھی لکیر (Straight Line) سامنے آتی
ہے!
میڈیکل سائنس کے مطابق یہ لکیر اُس وقت سیدھی ہوتی ہے جب دماغی
سیلز کوئی بھی الیکٹرو میگنیٹک ( Electro Magnetic) حرکت
نہ کر رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں دماغ کی وہ توانائی باقی نہیں رہتی جو سوچ یا
خیال کو جنم دے سکے ۔ زیادہ تر لوگ جنہوں نے یہ تجربہ کیا ہے وہ اپنی دیکھی ہوئی
رو داد کو بہت شفاف بر اور است اور اپنے شعور کی سطح سے بالا تر بیان کرتے ہیں، جب
کہ وہ حالت بیداری اور معمول کی زندگی میں اس قدر شفاف اور واضح شعوری سطح رکھنے
کا دعوی نہیں کرتے ۔
ڈاکٹر پروین لومل (Pim Van Lommel) جو ماہر
امراض قلب (Heart Specialist) ہیں،
میں سال انہوں نے علمی اور اصولی نقطہ نظر سے تحقیق کی ہے۔ وہ بے شمار مریض جنہیں
ہارٹ اٹیک ہوا اور ان کے نتائج کو سن ۲۰۰
میں علمی جدید ولانٹ (Lancet) میں نشر
کیا گیا ۔ ان کی تحقیقاتی رپورٹ یہ بیان کرتی ہے کہ موت کے قریب کے تجربہ (NDE) کا ہارٹ فیل ہو جانے، بے ہوش رہنے
دوائیں جو استعمال کی جاتی ہیں یا اس شخص کا موت سے خوفزدہ ہو جانے سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ یعنی موت کے قریب کے تجربہ میں اور ہارٹ فیل ہونے کی وجوہات میں کوئی
تعلق نہیں پایا جاتا۔
اسی طرح دیگر تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق کسی شخص کا اس بات سے
کوئی تعلق نہیں کہ اس کی نسل یا اس کا مند ہی اور ثقافتی پس منظر کیا ہے، اور اس کی
معاشرتی حیثیت یا تعلیمی قابلیت کتنی ہے ! اس کے (NDE) کے
بارے میں پہلے سے جاننے یا نہ جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ڈاکٹر ہم دین لوصل اپنی تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں یہ بیان
کرتے ہیں کہ ہمارا ضمیر اور روح موت کے بعد باقی رہتا
۲۔ بہت ساری
رپورٹس کے مطابق جس شخص نے یہ تجربہ کیا ہے ، اس کے باوجود کہ اس کے زندہ رہنے کی
کوئی علامات (Symptoms) نہیں ہو تیں، وہ بخوبی مادی دنیا میں ہونے والے واقعات کو دیکھ
رہا ہو تا ہے ۔ مثلا ڈا کٹر ز آپریشن تھیٹر میں کیا کر رہے ہیں ، وہاں موجود لوگوں
کو دیکھ اور سن سکتا ہے اور دنیا میں واپس پلٹنے کے بعد ان ساری تفصیلات کو باریکی
سے بیان کرتا ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں کئی بار ایسے واقعات ہوئے ہیں، حتی کہ یہ
لوگ آس پاس کے موجود لوگوں کے ذہنوں کے افکار کو بھی بیان کر چکے ہیں۔ مشہور واقعہ
ہے کہ آقائے محمد زمانی سال ۱۹۷۷
میں کار حادثہ میں انتقال کر گئے اور ان کی حیات کی ساری علامات ختم ہو گئیں۔ لیکن
پھر اچانک وہ زندگی کی آغوش میں واپس آگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے وہ سارا
ما جر اڈا کٹرز اور نرسز سے بیان کیا جو آپریشن تھیٹر اور سرد خانے میں رونما ہوا۔
جو کچھ انہوں نے بتایا ، وہ حقیقت کے عین مطابق تھا۔ جن علمی اور سائنسی معیارات
کو ہم جانتے ہیں، اس واقعہ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
۳۔ کچھ ایسے لوگ
جو پیدائشی نابینا تھے، انہوں نے اس تجربہ کے دوران آس پاس کی چیزوں کو بخوبی بیان
کیا۔
ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (Dr Raymond Moody) کی
کتاب "حیات بعد از حیات (Life After Life) میں ایک
ایسی عورت کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے، جو پچپن سے نابینا تھی۔ اُس نے موت کے قریب کے
تجربہ کے بعد آپریشن تھیٹر میں ہونے والے سارے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے
بتایا کہ کون کون لوگ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوئے اور ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی
اور آپریشن میں استعمال ہونے والے سامان کی شکل کیسی تھی۔
ڈاکٹر کینتھ رنگ اور شیرون کو پر (DrKenneth Ring and Sharon Cooper) نے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو کتاب
"ذہن کی نظریں " میں بیان کرتے ہوئے ان افراد کی نشاندہی کی ہے جو پیدائشی
طور پر نابینا تھے اور انہوں نے موت
کے قریب کے تجربہ کے بعد کے حقائق کو بیان کیا ہے۔
۔ بہت سے چھوٹے بچے جو موت کے قریب کے تجربہ
سے گزرے ہیں، ان کی روداد اور رپورٹس بڑے لوگوں جیسی تھیں جب کہ وہ بچے موت کے
بارے میں مذہبی تعلیمات اور معاشرتی نظریات نہیں رکھتے تھے اور ان کے ذہن میں موت
اور اس عالم کے بعد کی دنیا اور روحانیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بچوں اور بڑوں کی
ذہنی ساخت مختلف ہوتی ہے۔
اسی حوالہ سے ڈاکٹر ملوین امیل مورس ( DrMelvin L.Morse) جو بچوں کے امراض کے ماہر (Child Specialist) تھے اور موت کے بعد کی
زندگی کے بارے میں کوئی عقیدہ نہیں رکھتے تھے ۔ انہوں نے سن ۱۹۸۲ میں ڈیوٹی کے دوران موت کے قریب
کے تجربہ کا پہلا مشاہدہ کیا۔ وہ بچہ جو ان کے زیر علاج تھا۔ دنیا میں پلٹنے کے
بعد بخوبی بیان کر سکتا تھا کہ ڈاکٹر ز نے کس طرح سے سرجری کی اور اس کی روح کس
طرح جسم سے الگ ہوئی۔ وہ آپریشن تھیٹر میں ہونے والے تمام واقعات کو بیان کرنے کی
صلاحیت رکھتا تھا، اس تجربہ کے نتیجہ میں ڈاکٹر کے خیالات میں تبدیلی آئی۔
۵۔ کئی افراد
جنہوں نے موت کے قریب کا تجربہ حاصل کیا، ان کی زندگی میں اس تجربہ کا گہرا اثر
نظر آیا۔ یہ اثر ان کی شخصیت اور نظریات (Ideology)
میں نمایاں تھا۔ جیسے اس کتاب کے چھپنے کے بعد ایک شخص نے
رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ اپنے چھوٹے سے شہر میں ایک سافٹ ویئر کی دکان میں کام
کرتا تھا۔ اگر چہ وہ نماز اور دینی مسائل پر توجہ دیتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے زیادہ
تر غیر اخلاقی فلمیں (Porn Movies) بیچ رہا تھا! یہاں تک کہ اسے موت کے قریب کا تجربہ پیش آیا
اور اُس نے دیکھا کہ وہ تمام لوگ جنہیں اس نے فلیں فروخت کی تھیں بھی اخلاقی
مشکلات اور مسائل سے دو چار تھے۔ جس شخص کو بھی اس نے فلم بھی اس وجہ سے اس کے
کندھوں پر ایک سنگین وزن رکھ دیا گیا۔ ایک سیمنٹ کے بلاک جتنا وزنی بوجھ ! اور وہ
اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا، اس شخص کے مطابق بلاک کا وزن اتنا زیادہ
تھا کہ وہ خود کو موت کے دہانے پر محسوس کر رہا تھا، یہاں تک کہ اسے اجازت ملی کہ
وہ دنیا میں واپس پلٹ آئے، اُس دن کے بعد اس نے اپنے تمام گاہوں کو ڈھونڈا اور انہیں
بہت مشکل سے راضی کیا کہ اب وہ دوبارہ ان موضوعات کے پیچھے نہ پڑیں۔
ان لوگوں میں پائی جانے والی تبدیلیاں ہمیشہ مثبت پہلو رکھتی ہیں،
مثلاً ایک با مقصد زندگی بسر کرنا، کانات کی تخلیق کے مقصد کو سمجھنا، اپنی ذمہ
داریوں کا احساس کرنا اور اپنے کام، ملازمت اور کاروبار کے انداز میں تبدیلی لانا
اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ایسے لوگ اپنی بقیہ زندگی کو نیکی اور خیرات کیلئے وقف کر
دیتے ہیں، اخلاق میں مہربان، صبر و تحمل والے بن جاتے ہیں اور نشہ آور منشیات کے
استعمال کو ترک کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ مغربی ممالک جہاں تمام چیزیں مادی نظر سے
بیان کی جاتی ہیں، وہاں ان افراد کی زندگی میں رومانی پہلو کئی گنازیادہ ابھر کر
سامنے آتا ہے۔
۶۔ موت کے قریب
تجربہ میں انسان اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھتا ہے ، چاہے وہ اعمال اچھے ہوں یا بڑے !
قرآن کریم اس نکتہ کو یوں بیان کرتا ہے:
پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے دوا سے دیکھے گا اور جس نے
ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔ (سورہ الزلزال: سے اور ۸) آقائے زمانی اپنی داستان میں ایک
مقام پر بیان کرتے ہیں : " بچپن کی بات ہے کہ مشہد جانے کی توفیق نصیب ہوئی،
گاڑی گرم ہو کر راستے میں رک گئی۔ قریب ہی ایک گاؤں تھا، ڈرائیور نے مجھے ایک پانی
کا بر تن دیا اور کہا: یہاں قریب ایک چشمہ ہے ، جاؤ وہاں سے پانی بھر کر لے آؤ! میں
نے چشمہ سے پانی بھر الیکن میں کمسن تھا اور بر تن کو گاڑی تک لانا میرے لئے مشکل
تھا، راستے میں خیال آیا، کیوں نا تھوڑا سا پانی پھینک دوں تاکہ برتن اٹھانے میں
آسانی ہو۔ سامنے ہی ایک درخت نظر آیا جو خشک زمین پر تھا۔ میں درخت کی طرف چل پڑا
اور پانی سے درخت کی جڑوں کو سیراب کرنے لگا، اگر چہ وہاں تک جانے کیلئے تھوڑا زیادہ
چلنا پڑا۔ عالم برزخ میں میرے اس کام کو بہت سراہا گیا۔ میرے تصور میں نہیں تھا کہ
وہاں میرے اس عمل کو اتنی زیادہ اہمیت دی جائے گی گویا تمام ارواح میرے اس عمل پر
فخر محسوس کر رہی تھیں۔ مجھے دکھایا گیا کہ میرا یہ عمل بہت قیمتی ہے کیونکہ وہ
کام خلوص کے ساتھ انجام دیا گیا تھا۔
ے۔ ممکن ہے کہ کچھ افراد ایسا تصور کریں کہ اس طرح کی روداد میں
جھوٹی ہوتی ہیں اور اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے گھڑی گئی ہیں ۔ جواب میں یہ بیان
کرنا ہو گا کہ جھوٹ بولنے کی سب سے بڑی وجہ انسان کا ذاتی مفاد ہوتا ہے جب کہ جو
افراد موت کے قریب کا تجربہ کر چکے ہیں، انہیں اس کے حقائق بیان کرنے کا کوئی
فائدہ نہیں ہو تا بلکہ اکثر لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر حقیقت پسند نظروں سے دیکھا
جائے تو وہ تمام افراد جنہوں نے موت کے قریب کا تجربہ بیان کیا ہے، جھوٹے نہیں ہو
سکتے کیونکہ موت کے قریب کےتجربہ کی۔ پورٹس ہزاروں کی تعداد میں میں اور ان کے درمیان
مشابہت بھی پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ جو شخص ہر شے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے ایہ
روداد ہیں اسے بھی سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ
رپورٹس مذ ہب یا نہ اپر اعتقاد کو پروان چڑ ھانے کی نیت سے بنائی جاتی ہیں۔ اس بات
کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے کہ بہت سے افراد جنہوں نے یہ تجربہ کیا، ان میں ایسے
کم سن بچے بھی شامل تھے جو دین، مذہب اور خدا کے وجود یا دینی نقطہ نظر کے بارے میں
کوئی معلومات نہیں رکھتے تھے۔ اور ان میں سے کئی تجربہ کرنے والے افراد کا دین دار
ہونا تو دور کی بات ہے ، وہ خد اکے بھی منکر تھے !
۔ اس روداد میں عموما ہر شخص اپنی زندگی کے
تمام مناظر فلم کی شکل میں دیکھتا ہے یعنی اس کا ہر نیک اور برا عمل اس کی آنکھوں
کے سامنے ہوتا ہے ۔ اس کیفیت میں ہر شخص اپنے عمل کی تاثیر کو اپنی ذات یا دیگر
افراد کی زندگی کے حوالہ سے بخوبی سمجھتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر انسان کسی کے
ساتھ محبت سے پیش آتا ہے تو فوراًخوشی محسوس کرتا ہے اور اگر کسی کی دل آزاری کرے
تو اسے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ عموماً ایک نورانی حقیقت اس تجربہ میں ان لوگوں کے
ہمراہ ہوتی ہے اور ان سے پوچھتی ہے کہ تم
نے اپنی عمر کیسے گزاری؟
تقریبا سب لوگ جنہوں نے یہ تجربہ کیا ہے زندگی کی طرف اس عقیدے
کے ساتھ ملتے ہیں کہ ان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار اور
بندگان ندا سے محبت کریں اور اس کے بعد علم کا حصول اور دیگر ترجیحات ۔
آیت اللہ قرائتی فرماتے ہیں: "حوزہ علمیہ کے کسی بزرگ عالم
دین نے جب موت کے قریب کا تجربہ حاصل کیا تو انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے
کائنات کی دوسری سمت ایک ہی لمحہ میں تمام دنیاوی اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
یہ کہ میں نے اپنی پوری زندگی تباہ کر دی ہے اور میرے اکثر اعمال ریا کاری اور
اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں اور صرف گناہ باقی بچے میں ۔ میں اس قدر
خوف زدہ تھا اور سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کروں، میں نے اللہ کے ملائکہ سے بے
حد اصرار کیا، یہاں تک کہ محبت اہل
بیت علیہم السلام کے صدقہ میں میری شفاعت ہوئی اور مجھے واپس
پلٹنے کی اجازت ملی۔“
۔ جن افراد نے موت کے قریب کا تجربہ حاصل کیا
ہے ، وقت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر قابل غور ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس عالم کے
وقت اور ہماری دنیا کے وقت میں کوئی مشابہت نہیں ہے، وہاں پر وقت کو یا بہت متراکم (Compact) ہے ۔ ان کے مطابق موت کے قریب کے
تجر بہ میں وقت ایسا ہے گویا آپ ابدی زمانہ
(Infinity) میں داخل ہو چکے ہوں، یعنی ممکن ہے کہآپ بہت ساری
رودادوں کو چند لمحوں میں دیکھ لیں کسی خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کا موت کے قریب
کا تجر بہ کتنی دیر کا تھا؟ وہ کہنے لگیں کہ آپ کہہ سکتے ہیں ایک سیکنڈ یا دس ہزار
سال ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موت کے قریب کے تجربہ میں وقت کوئی معنی نہیں
رکھتا، شاید آپ چند لمحوں میں بہت سی روداد یں دیکھ لیں جن کو بیان کرنے کیلئے آپ
کو کئی گھنٹے درکار ہوں گے۔
۱۰۔
موت کے قریب کے تجربہ میں انسان اپنی گزشتہ زندگی کے ان واقعات کو بھی دیکھتا ہے
جو وہ مکمل طور پر بھول چکا ہوتا ہے پیادہ واقعات اس عرصہ میں رونما ہوئے جب وہ کم
سن تھا اور اس عرصہ کے واقعات کو یاد کرنا نا ممکن تھا۔ لوگ اپنے ان رشتہ داروں سے
بھی ملاقات کرتے ہیں جو ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی
ہوتا ہے کہ موت کے قریب کا تجربہ کر نیوالا شخص عام زندگی میں کسی انسان کی موت کی
خبر نہیں رکھتا لیکن دوران تجر بہ اسے اطلاع ملتی ہے کہ وہ شخص انتقال کر چکا ہے۔
کولٹن بر پو (Colton Burpo) کی روداد
عرش حقیقی "نامی کتاب میں شائع کی گئی ہے۔ ایک چار سالہ بچہ جو سن ۲۰۰۳ میں دوران آپریشن وقتی طور پر
انتقال کر گیا اور ہوش میں آنے کے بعد اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ اس کی اپنی
اس بہن سے ملاقات ہوئی جو اس کی ولادت سے پہلے دوران پیدائش مرچکی تھی، اس کے والدین
کیلئے یہ بہت حیرت کی بات تھی کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کبھی اُس بیٹی کے بارے
میں نہیں بتایا تھا۔ کولٹن کی عارضی موت کے دوران آس پاس کے افراد جو سر گرمیاں
انجام دیتے رہے، ان کے بارے میں بھی اس نے ان کو آگاہ کیا۔
چنانچہ اس بات کی طرف توجہ دینی ہوگی کہ اگر چہ موت کے قریب کا
تجربہ ایسا نہیں کہ آپ اس کو علمی سطح پر آزما سکیں اور ہر شخص کے ساتھ ایسا ہونا
ممکن بھی نہیں ہے لیکن جن افراد نے یہ تجربہ کیا ہے، ان کی دقیق رپورٹس سے ہم پر یہ
واضح ہوتا ہے کہ یہ نظریہ (موت کے قریب کا تجربہ ) حقیقت پر مبنی ہے ۔ جو شخص دینی
معلومات رکھتا ہے وہ ان رو دادوں کو پڑھ کر بہت آسانی سے ان کے صحیح یا غلط ہونے
کا ادراک کر سکتا ہے کیونکہ ان رودادوں میں بیان شدہ باتیں دینی کتب میں موجود ہیں
۔ البتہ بعض اوقات مفاد پرست عناصر ان تجربوں کے نام پر نا جائز دو کا مداری کرتے
ہیں۔
آخر میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ تمام افراد جنہوں
نے اس تجربہ کو حاصل کیا اور وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوئے ، در حقیقت ان کی
موت کا وقت مقرر نہیں تھا اور ملک الموت نے ہمیشہ کیلئے ان کو اس دنیا سے الگ نہیں
کیا تھا۔لہذا اکثر رو دادوں میں نامہ اعمال کے حساب کتاب کے بارے میں خبر نہیں ملتی
جب کہ تمام ادیان کا یہ مشتر کہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد حساب کتاب ضرور ہوتا ہے۔
ان واقعات کے ذریعہ اللہ تعالی دیگر افراد کو یاد دہانی کراتا ہے کہ مادی دنیا میں
حد سے زیادہ فرق نہ ہو جاؤ اور خود کو واپسی اور معاد کیلئے آمادہ کرو۔
اب ہم اس طویل مقدمہ کے بعد ایک ایسے شخص کی روداد کی طرف بڑھ
رہے ہیں جو ایک خاص تجر بہ سے گزرا، وہ چند منٹ کیلئے اس مادی دنیا سے خارج ہوا
اور التماس اور دعاؤں کی بدولت اس کی واپسی ہوئی، اس کی روداد اپنی مثال آپ ہے ۔
جب میں بہت تلاش و کوشش کے بعد اس شخص تک پہنچا اور اس سے ملاقات اور گفتگوئی تو میں
نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کی گفتگو مین وہی مطالب بیان کرتی ہے جو معاد کے
موضوعات پر کتب میں درج ہیں۔ لہذا میں آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ بھی اس سفر میں
ہمارےساتھ رہیں۔
Post a Comment
Post a Comment