Teen Minat Qiyamat men
میز والے شخص نے اس کتاب کی طرف
اشارہ کیا میں اشارہ سمجھ نہ پایا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا اس نے کہا تمہاری
اپنی کتاب ہے اسے پڑھو۔۔۔ آج حساب کتاب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم خود اس سے دیکھ
لو ،
یہ جملہ میرے لیے کس قدر مانوس
تھا کیونکہ میں نے اپنے استاد سے یہ ایت سن رکھی تھی جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا۔
ترجمہ تمہارے حساب کے لیے یہی کتاب کافی ہے سورہ اسراء آیت نمبر 14 میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی ایک لمحے کو رکا اور پھر کتاب کھولی کتاب کے اوپر بائیں طرف جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ تین سال چھ ماہ اور تین دن میں جو ان سے اس کا مطلب دریافت کیا تو اس نے بتایا یہ وہ دن ہے جب آپ قمری سال کے اعتبار سےبالغ ہوئے تھے لیکن میرے اعتبار سے ایک سال اور پانچ دن کم درج تھے جوان نے میرا ذہن پڑھ لیا اور کہا کے بالغ ہونے کی نشانی وہ نہیں جو آپ کے ذہن میں ہے میں نے اس کی تائید کی۔۔
بلوغت کی عمر درج ہونے
والے صفحے سے قبل تمام اچھے اعمال لکھے ہوئے تھے جیسے زیارت کو جانا، نماز کے اول
وقت میں ادائیگی ،والدین کا احترام ،تمام مجالس وغیرہ کا انتظام کرنا میرے استفسار
پر ترجمان نے بتایا کہ یہ بلوغت سے قبل میرے تمام اچھے اعمال ہے جنہیں محفوظ کیا
گیا تھا اس سے پہلے میں اپنے بلوغت کے
نامہ اعمال والے صفحے کو دیکھتا جوان نے
تعریفی نظروں سے کتاب کو دیکھا اور کہا تمہاری نماز اچھی ہے اور خدا کی بارگاہ میں
قبول بھی ہوئیں ہیں تمہارے اعمال کی طرف بڑھتے ہیں یہ سنتے ہی مجھے نبی کریم ﷺ کی
وہ حدیث یاد آگئی جس میں فرمایا کہ پہلی چیز جس کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ
نماز ہے کنزالاعمال صفحہ نمبر 276 ۔۔
میں نے بلوغت سے پہلے ہی نماز ادا کرنا شروع کر دی تھی اور والدین کی توجہ کی وجہ سے ہمیشہ مسجد میں حاضر ہوا کرتا تھا بہت کم ایسا ہوا کہ میری فجر کی نماز قضا ہوئی اور کبھی اتفاقا قضا ہو جاتی تو شام تک افسردہ اور پریشان رہتا مجھے نماز کی اہمیت کے بارے میں بچپن میں ہی بتایا گیا تھا اس لئے میں نے نماز کو ہمیشہ اہمیت دی اس حدیث کو یاد کر کے میں خوش ہوا اور دل میں امید پیدا ہوئی باقی اعمال بھی قبول ہوں گے۔
میں نے اپنے نامہ اعمال
کے پہلے صفحے پر نظر ڈالی تو بلوغت سے قبل کے تمام اعمال اس صفحے پر تحریر تھے ہر
نیکی اور بدی کے چھوٹے سے چھوٹے عمل بھی وہاں موجود تھا کوئی ایسا عمل نہ تھا جو
دیکھنے سے رہ گیا ہوں یعنی اس کتاب میں سب لکھا تھا جیسا کہ خداوند تعالیٰ نے کہا ہے۔
ترجمہ کہ جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی اور اسے دیکھ لے گا
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اسے دیکھے گا ۔
مطلب کے ہم جس چیز کو دنیا میں ہلکا اور بے وزن سمجھتے ہیں وہ یہاں سنگینی کے ساتھ
درج ہوتی ہے میرا ہر عمل تصویری شکل میں موجود تھا تصویر پر نظر پڑتے ہی ہر تصویر ویڈیو میں بدل جاتی ۔ تمام ویڈیوز تھری ڈی تھے ہر عمل کی تفصیل تھی کہ
وہ ویڈیو میں جس سے مخاطب تھا اس کا ذہن بھی پڑھ سکتا تھا الغرض کسی بھی عمل سے
انکار کرنا ناممکن تھا اور تو اور ہر عمل کے ساتھ اس کی نیت بھی درج تھی شک کی
کوئی گنجائش نہ تھی میں خوش تھا کہ بچپن سے ہی والدین کے ہمراہ مسجد میں جا رہا
ہوں میں خود کو جنت کے اعلی درجات میں محفوظ
کر رہا تھا کہ اچانک پہلے صفحہ کے تمام اچھے اعمال ایک کر کے غائب ہو گئے اب وہ
صفحہ بالکل سادہ تھا میں نے غصے میں میز کی دوسری طرف کے جوان کو دیکھا اور کہا کیا وجہ
ہے کہ یہ عمل مٹا دیئے گئے کیا میں نے انہیں انجام نہیں دیا ؟ جو ان بولا آپ نے
درست فرمایا لیکن اسی دن آپ نے اپنے ایک دوست کی غیبت کی تھی لہذا آپ کے اس دن کے
اعمال اس کے نامہ اعمال میں منتقل کر دیے گئے ہیں میں بدستور غصے میں تھا آخر سارے
اعمال ہی کیوں جوان نے نبی ﷺ کی حدیث
سنائی ۔ جس میں انہوں نے
فرمایا کہ جس تیزی سے کسی کی غیبت انسان کے نیک اعمال کو کھا جاتی ہے ویسے درخت کو نہیں کھاتی بحارالانوار ۴ جلد 15 صفحہ
229 ۔
اگلا صفحہ دیکھا وہاں بھی نیکیاں لکھی ہوئی نظر آئیں جیسے اول وقت میں نماز ادا کرنا ،مسجد میں والدین کی رضامندی سے حاضر ہونا اور دیگر کام میرے تمام تر اعمال کی ریکارڈنگ موجود تھیں جنہیں دیکھنے کی ضرورت نہ تھی میں اپنے تمام اعمال کی تائید کر رہا تھا جن اعمال کو فراموش کر چکا تھا وہ سب میرے لئے دہرائے گئے لیکن ایک بار پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تمام اعمال بھی مٹنے چلے گئے ۔میں نے کہا اب کیوں؟
اس دن تو میں نے کوئی بات
نہیں کی تھی اب کی بار جو ان کا جواب مختلف تھا یہ اس لیے کہ تم اس دن اپنے نیک
دوستوں کا مذاق اڑا رہے تھے اس عمل کی وجہ سے تمہاری نیکیاں مٹا دی گئی ہے میرے
ذہن نے سورہ یاسین کی آیت نمبر 30 کو دہرایا۔ جس میں خداوند تعالیٰ کا ارشاد ہے
ترجمہ کس قدر حسرت ناک ہے ان
بندوں کا حال جب ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔
میں بھی سمجھ گیا کہ اس آیت میں کن لوگوں کی طرف
اشارہ ہے میں دوسروں کو ہنسانے کے لیے لوگوں کا مذاق اڑایا کرتا اور اپنے دوست
احباب کو بیوقوف بنایا کرتا تھا میں نے خود سے کہا اگر یہ معاملہ اس طرح چلتا رہا
تو میری اوقات گرتی چلی جائے گی اب اگلا صفحہ نظروں کے سامنے تھا لیکن اس پر دس
نیکیاں محو نہیں ہوئی ایک حدیث یاد آئی جو
امام امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے آپ فرماتے ہیں۔
نماز کے کے بعد بہترین عمل مومنین کے دلوں کو خوش کرنا ہے۔ اس انداز میں
کہ جو گناہ نہ ہوں۔
اگلے صفحے پر میں نے حیرت سے نگاہ ڈالی اس پر
میرے لیے ایک حج کا ثواب لکھا ہوا تھا میں جو ان سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوا ۔۔اس
عمر میں کب میں حج پر گیا تھا؟ کہ مجھے علم ہی نہیں اور یہاں اس کا ثواب درج ہے
کہ بعض اعمال کی ادائیگی پر حج کا ثواب ملتا ہے جیسے والدین کو محبت کی نگاہ سے
دیکھنا اور امام علی رضا علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ زیارت وغیرہ لیکن پھر وہی
اعمال حذف ہونے لگے اب سوال کرنے کی گنجائش باقی نہ رہی اس کا منظر دکھایا گیا جس
میں اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنے دوست کو مسلسل تنگ کر رہا تھا مجھے سورہ زمر کی آیت
نمبر 56 یاد آئی جس میں مذاق اڑانے والوں کا ذکر ہے
ترجمہ:
پھر تم میں سے کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس کہ میں نے خدا کے حق
میں بڑی کوتاہی کی ہے اور میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا ۔
میں نے اپنے ساتھ کھڑے دو
افراد سے کہا کہ وہ میرے لیے کچھ کریں میرے سارے اعمال ضائع ہوتے
جا رہے ہیں انہوں نے جواباً نفی میں سر
ہلایا ان کے چہرے کی مایوسی بتا رہی تھی کہ وہ میرے لیے کچھ نہیں کر سکتے اعمال جن
کا اجر حاصل کرنے کے لیے میں نے اتنی محنت کی تھی کم ہوتے جا رہے تھے مجھے شدید
ذہنی اذیت کا احساس ہوا میری تمام روحانی ثروت میری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی
تھی اور میں بے بس تھا اس دنیا کا ہر مذاق یہاں بہت سنگین شمار کیا گیا دوسروں کا
نامہ اعمال میرے نیکیوں سے پر ہو رہا تھا۔ ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ عمر
میں اضافے کے ساتھ مسجد اور مجالس کا ثواب کم سے کم تر ہوتا جا رہا تھا میں نے جو
ان سے پوچھا کہ ان ایام میں میں نے تمام نمازیں مسجد جا کر ادا کی تھی کہ وہ ہر
تمام ثواب درج کیوں نہیں کیا گیا جوان نے کہا اپنا نامہ اعمال غور سے دیکھو عمر
گزرنے کے ساتھ ساتھ تمہا رے ایمان میں ریاکاری بڑھتی گئی ابتدا میں تم خالص نیت کے
ساتھ مسجد اور مجلس میں جاتے تھے لیکن بعد میں تم جانے لگے کہ لوگ تمہیں مسجد جاتے
ہوئے دیکھیں مجلس میں اس نیت سے جانا تمہارے دوست ہیں ہم مجلس میں شامل تھے تو تم کو یہ
خدا کی رضا کے لئے یہ عمل انجام دینے تھے کبھی ایسی مسجد یا مدرسہ بھی جانا چاہیے
تھا جہاں تمہارے دوست نہ تھے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
Post a Comment
Post a Comment