کیو ں کہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا اس لئے میرا بچپن مسجد ومجالس میں گزرا میں بسیج کے ادارے کا ایک فعال رکن تھا تھا جب میں اسکول کا طالب علم تھا جنگ کے ایام چل رہے تھے تھے ان دنوں ہمارا بیشتر وقت مسجد میں گزرتا تھا ہم نے دفاع مقدس کے آخری سالوں میں بہت دعائیں اور گریا کیا کہ کسی طرح جہاد میں شامل ہونا نصیب ہو آخرکار اللہ نے مجھے توفیق دی کہ مجاہدین اسلام کے ساتھ جنگ کے محاذ کی روحانی فضا کو محسوس کر سکوں میں اس وقت اصفہان کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہائش پذیر تھا
وہ اس کی روحانی فضا جنگ کے ساتھ ہی ختم ہوگئی اور میں شہادت کی حسرت دل میں لئے واپس لوٹا ۔اسکے بعد میں اپنی تمام ہمت و محنت کوروحانی درجات کے حصول کے لئے قرار دیا یا میں جانتا تھا کہ شہداء جہاد اصغر سے قبل جہاد اکبر میں کامیاب ہوتے ہیں لہذا جوانی میں میری پوری کوشش رہی کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو مسجد جاتے ہوئے رستے میں نظر جھکائے رکھتا مبادہ کسی نامحرم پر نظر پڑے بے میں عمر کی 17 بہاریں دیکھ چکا تھا ایک شب خلوت میں خدا سے راز و نیاز کے دوران بہت رویا اور گڑگڑایا کہ پروردگار تو مجھے اس دنیا کے گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھ اور جلد اپنے پاس بلا لے میں نہیں چاہتا کہ گناہ میرے وجود کو آلودہ کریں ۔ مجھے ڈر ہے کہیں معمولات زندگی سے غیر ضروری وابستگی میری قسمت کی خرابی کا سبب نہ بن جائے ۔
میں نے حضرت عزرائیل سے درخواست کی کہ وہ میری روح قبض کرنے جلدی آجائے ۔چند دن بعد میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر کچھ افراد کو مسجد مقدس کی زیارت پر لے جانے کا پروگرام بنایا ۔کافی تردد کے بعد سفر کے انتظامات مکمل ہوئے اور جمعرات کے دن بعد از ظہر روانگی کا وقت طے پایا بدھ کا دن گزرا اور میں تھکا ہارا گھرلوٹا تو حسب معمول حضرت عزائیل کو یاد کیا اور اپنی موت کی دعا مانگی اپنی کم سنی اور ذہنی ناپختگی کی وجہ سے میں اس دعا کو اپنے حق میں بہتر سمجھتا رہا ،ہاں یہ جانے بغیر کہ اھل بیت علیہم السلام نے خدا سے ایسا کبھی نہیں چاہا بلکہ وہ دنیا کو آخرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے پل سمجھتے تھے جس سے گزرنا ضروری تھا۔
تھکاوٹ کی وجہ سے جلد ہی میری آنکھ لگ گئی رات کا آخری پہر تھا اور تہجد پڑھ کر دوبارہ سو گیا اسی عالم خواب میں دیکھا کہ ایک انتہائی خوبصورت جوان میرے سرہانے کھڑا ہے اس کی ہیبت و خوبصورتی نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں بے اختیار اٹھا اور ادب سے اسے سلام کیا جوان نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا کہ مجھے اس سے کیا کام ہے اور کیوں میں اسے بار بار طلب کرتا ہوں جب کہ میری باری ابھی نہیں آئی تھی یہ بات سنتے ہی میں سمجھ گیا کہ وہ جوان عزرائیل ہیں میں ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ اگر حضرت عزرائیل اتنے حسین و جمیل ہیں تو لوگ ان سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں حضرت عزرائیل علیہ السلام جانے لگے تو میں نے میں نے دوبارہ ان سے التجا کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں انہوں نے اشارے سے رکنےکو کہا میں اپنی جگہ واپس پلٹا اور زور سے زمین پر گرا گھڑی پر نظر پڑی تو دن کے 12 بج رہے تھے اس میں میری آنکھ کھل گئی ارد گرد اندھیرا تھا میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن جسم کے بائیں طرف درد شدید درد محسوس ہوا خواب میں اسی جانب گرا تھا اب نیند آنکھوں سے غائب تھی اور میں سوچتا رہا کہ کیا واقعی میری ملاقات حضرت عزرائیل علیہ السلام سے ہوئی تھی اور یہ کس قدر حسین تھے
مجھے صبح ہوتے ہی مشہد مقدس کی طرف سفر کی فکر میں لگ گیا عین اس وقت کے جب سب لوگ بس میں سوار ہو رہے تھے پتہ چلا کہ دوستوں نے سپاہ پاسداران سے صفحہ کا اجازت نامہ نہیں لیا میں نے بیس کیمپ سے موٹر سائیکلیں اور سپاہ کے دفتر روانہ ہوا واپسی میں ٹریفک سگنل پر کسی ٹیکسی ڈرائیور نے اچانک بائیں طرف سے میری موٹر سائیکل کو زور دار ٹکر ماری میں ٹیکسی کی بونٹ اور اور چھت سے ٹکراتا ہوا زمین پر جا گرا میرے جسم کے بائیں حصے میں درد کی لہریں تھیں ٹیکسی ڈرائیور تیزی سے میری جانب بڑھ رہا تھا شاید وہ سمجھا کہ میں مر چکا ہوں مجھے بھی یہی محسوس ہوا کہ اب میرا آخری وقت قریب ہے درد ہو رہا تھا یہ گزشتہ رات والے خواب جیسی صورتحال تھی میں نے سوچا کہ میں بچ جاؤں گا کیونکہ خواب میں حضرت عزرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ ابھی میرے جانے کا وقت نہیں آیا اچانک مجھے خیال آیا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین میرے منتظر ہوں گے
میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا آپ ٹھیک تو ہے ہے میں سنی ان سنی کرتا ہوا موٹر سائیکل کی طرف لپکا وہ آوازیں دیتا رہا کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ٹھیک ہو اسے خوف تھا کہ میں کہیں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے گر نہ جاؤ اس لیے وہ راستے میں میرے پیچھے پیچھے رہا خدا کا شکر کے کاروان مشہد کے لیے روانہ ہوگیا حادثہ ہونے والا درد ہفتے بعدختم ہوگا اب میں یہ بات سمجھ چکا تھا کہ جب تک میرے پاس وقت اور فرصت ہے مجھے رضائے پروردگار کے لیے امور زندگی انجام دینا ہوں گے اور اپنی موت کی دعا نہیں مانگنی چاہیے جب میرا وقت آئے گا تو حضرت عزرائیل مجھے خود ہی لینے آ جائیں گے لیکن میں ہمیشہ دعا کرتا تھا کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو ان دنوں میری پوری کوشش تھی کہ پاسداران انقلاب میں شامل ہو جاؤں
,اور میرا عقیدہ تھا کہ سپاہ کی سبز وردی امام زمانہ کے انصار زیب تن کریں گے، چند سال بعد میری کوشش بار آور ثابت ہوئی اور میں مختلف تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد شمسی تاریخ کے مطابق ۱۳۷۰ کے ابتداء میں سپاہ پاسداران انقلاب میں شامل ہو گیا یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنے احباب کے نزدیک ایک محنتی ذمہ دار اور خوش مزاج انسان ہوں اور کسی حد تک لوگوں کو بے وقوف بنا نے کا فن جانتا ہوں ۔میرے دوستوں کے مطابق میری صحبت میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اس لیے تربیتی کیمپس ہو یا جنگی مشقیں میں جس تربیتی کیمپ ہوتا اس میں ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں کچھ عرصے بعد میں نے شادی کر لی اور معمولات زندگی میں مگن ہو گیا دن دفتر اور رات کے وقت گھر والوں کے ساتھ گزرتا کچھ راتوں میں مسجد اور انجمن بھی چلا جاتا ۔یوں مجھے سپاہ پاسدران سے منسلک ہویے اٹھارہ برس بیت گئے۔ایک دن اعلان ہوا کہ جنگی آپریشن کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
Post a Comment
Post a Comment