بیت المال

جوانی کے آغاز ہی سے سے بلکہ یوں کہہ لیں جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا ۔ حق الناس اور بیت المال میں پر میری گہری توجہ تھی میرے والد محترم ہمیشہ مجھے تاکید کیا کرتے تھے کہ بیت المال کے استعمال میں احتیاط کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خود کو اس گڑھے میں گرا دو ۔ دوسرے میری تربیت ممبر و مجالس کے سائے میں ہوئی تھی اس لئے میں ان موضوعات کو سنتا رہا تھا میں سپاہی بھرتی ہوا تو میری پوری کوشش ہوا کرتی تھی کہ دفتری اوقات کے دوران ذاتی کام نہ کروں اگر اس دوران کوئی ذاتی کام پر جایا کرتا تھا یا کوئی ذاتی فون کال آتی تو میں بعد میں اتنا یا اس سے زیادہ وقت لگا کر کام مکمل کرتا ہوں اضافی کام کے بدلے میں میں نے کبھی اس پر اجرت طلب نہیں کی اور ذہن میں یہ کال آتا رہتا ایک کہی روز قیامت کوئی مشکل پیش نہ آ جائے کم لیکن حلال تنخواہ لینے میں ہی بہتری ہے میں دفتر میں آنے والے لوگوں کا کام پوری توجہ کے ساتھ کرتا تھا تاکہ ان کی رضامندی حاصل کر سکوں یہ کام میرے نامہ اعمال میں درج تھا ۔
جوان نے مجھے کہا خدا کا شکر ادا کرو کہ بیت المال کا حساب تمہارے ذمہ نہ تھا ورنہ تمہیں پورے ملک کے لوگوں کی رضامندی حاصل کرنا پڑتی اتفاقا وہی پر کچھ لوگوں کو دیکھا جو بہت پریشان تھے کیونکہ انہوں نے پورے ملک کے لوگوں کو رضامندی حاصل کرنا تھی ان کے زمہ بیت المال کا حساب تھا یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہاں وقت اور جگہ کی اہمیت بیان نہ تھی یعنی میں باآسانی ان لوگوں کو دیکھ سکتا تھا جو مجھ سے پہلے پہلے انتقال کر چکے تھے یا پھر کسی سے بات چیت کیے بغیر ہی جان لیتا تھا کہ اسے کیا پریشانی ہے یہاں ایک جھلک اور ایک لمحے میں تمام حقیقتوں کو سمجھا جا سکتا ہے تھا میں ایسے لوگوں کی بہتات تھی جو بیت المال میں رشوت اور چوری جیسے گناہ کرتے تھے اب انہی ملک کی پوری عوام حتاکہ جو لوگ بھی ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے سے بخشش طلب کرنا تھی میرے نامہ اعمال کی موٹی سی کتاب کے ایک سفحہ پر ایک عنوان میرے لئے لکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا مجھے یاد آیا کہ ایک سپاہی اپنی ریٹایرمنٹ کے موقع پر میرے شعبے میں آیا اور شلف پر کچھ کتابیں رکھ دیں انہوں نے کہا تھا کہ کتابیں یہی پڑی رہیں تاکہ بعد میں آنے والا اور سپاہی اس سے استفادہ کریں تقریبا ایک سال تک نایٹ شفٹ کے سپاہی ان سے مستفید ہوتے رہے کچھ عرصے بعد میرا تبادلہ دوسرے شعبے میں ہوگیا میں اپنے ذاتی سامان کے ساتھ وہ کتب بھی لے گیا ایک ماہ گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس شعبے میں کتب بین افراد کی کمی تھی یہاں صورتحال قدرے مختلف تھی عملے کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ کتاب کا مطالعہ کرے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے وہ پچھلے شعبے میں بھجوا دیں جو جوان نے اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتب بیت المال کی تھی تم نے انہیں بلااجازت منتقل کیا تھا اگر تم ان کے پچھلے شعبے میں واپس نہ کیا ہوتا تو تمہیں تمام عملہ اور سپاہی جنہوں نے مستقبل میں اس شعبے میں آنا تھا ان سے معافی مانگنی پڑتی یہ بات سنیں سن کر میں واقعی ڈر گیا کیونکہ میں تو ان کتب کو نئے شعبے میں بڑی نیک نیتی سے لایا تھا اور میں نے ان سے زیادہ استفادہ بھی نہیں کیا تھا اور گھر کے بجائے دوسرے شعبے میں لے کر گیا تھا تاکہ کہ دوسرے لوگ زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں خدا ان لوگوں کو بچائے جو بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لیتے ہیں اسی حالت میں اپنے عملے کی ایک ساتھی کو دیکھا جو ایک مخلص مومن انسان تھے انہوں نے اخراجات کی مد میں ایک خطیر رقم کمانڈر دے لی تھی تاکہ شعبہ کے لیے ضروری اشیاء اور سامان لا سکے انہوں نے یہ رقم دفتر کی تجوری میں رکھنے کے بجائے اپنی جیب میں ڈال لیں اگلے ہی دے مجھے ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کا انتقال ہوگیا کیا تم مجھے عالم برزخ میں ملے میرے پاس آیا اور کہا میرے گھر والوں نے بیت المال کی امانت کو میرے ذاتی رقم سمجھ کر خرچ کر دیا ہے خدارا ان کے پاس جاؤکہ ےا رقم متعلقہ شخص کہ واپیس کر دیں میں یہاں بری طرح پھنسا ہوا ہوں خدا کے لیے میرا یہ کام کر دو دو آپ مجھے سمجھ ائی کہ ہمارے علمائے کرام بیت المال کے معاملے میں اتنے حساس کیوں ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ موت بتا کر نہیں آتی میں نے بعد اس کا پیغام پہنچا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس بات کا علم مجھے عالم برزخ میں ہوا بہرحال خانوادے نے وہ رقم لوٹادی ۔
نبی کریم کی سیرت سے نقل ہوا ہے ہے جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیبر کی سرزمین سے نقل کر رہے تھے اچانک آپ کے ایک صحابی کو تیر لگا اور شہید ہو گئے اس پر صحابہ نے کہا جنت آپ پر گواہ ہو۔ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر ملی تو اصحاب سے فرمایا کہ میں تم لوگوں کی بات سے متفق نہیں کیوں کہ اس صحابی نے جوعبا اوڑھ رکھی تھی وہ بیت المال کی تھی اور اس نے بغیر اجازت کے وہاں سے اٹھائی تھی یہ قیامت میں آگ کی صورت اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گی ایک صحابی نے عرض کی کہ میں نے دو جوتوں کے تسمے وہاں سے بغیر اجازت کے اٹھائے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا ان کو وہی پر رکھ دو ورنہ قیامت کے دن آگ بن کر تمہارے پاؤں سے لپٹ جائیں گے
(فروغ عبد یت ج2 ص 261)