Genetic Engineering The Next Level Development In Technology

جینیٹک انجینئرنگ ٹیکنالوجی  میں کامیابی  ، لمبی عمر رکھنے والے انسانوں کی تیاری

برطانوی سائنس فکشن رائٹر آرتھر کلارک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک اعلی درجے کی ٹیکنالوجی اور جادو میں فرق کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ یہ جملہ آج ہماری ترقی یافتہ دنیا میں حقیقت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے یہ  کون سوچ سکتا تھا کہ بغیر کسی قاصد یا  چٹھی کے   ان  ہوائیں  کی لہروں کے استعمال سے ایک جگہ سے دوسری جگہ رابطہ کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ایجادات آج سے پہلے محض ان چیزوں تک محدود تھی

جنہیں ہم  بطور ٹیکنالوجی  استعمال کرتے ہیں مثلاً موبائل فون یا سمارٹ واچز وغیرہ لیکن اب سائنس دانوں نے اس ترقی کے عمل میں انسانوں کو بھی شامل کر لیا ہے ذرا ایک منٹ کیلئے سوچیں کہ کیسا محسوس ہوگا کہ اگر ایک عام انسان اپنے جسم کو ترقی یافتہ بنانے کے بعد باز کی طرح تیز نگاہ کا مالک بن جائے یا کسی پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے کے قابل ہو جائے یا پھر اس میں ایسے سنسز   کا اضافہ کر دیا جائے جن سے انسان قدرتی طور پر محروم ہیں یقینا یہ سب باتیں آپ کے لئے حیران کن ہوں گی ۔ لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ عنقریب یہ تمام باتیں ٹرانسفارم نظام کی مدد سے سچ ہونے جا رہی ہیں لہذا  یہ بتاتے چلیں کہ عنقریب یہ تمام باتیں ٹرانس ہیومنزم کی مدد سے سچ ہونے جا رہی ہیں دراصل یہ  ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق جینیاتی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی اور برین مشین انٹرفیس سیاسی شعبہ جات کے اثرات سے انسانوں کو ان ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا جو کہ آج ہمارے خواب و خیال کی زینت ہے یا ہم جنہیں  سائنس فکشن فلموں کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ٹرانس ہیومنزم  کا دوسرا نام پوسٹ ہیومن انسان ہوں گے جو کہ بیک وقت انسانی خصوصیات کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری خصوصیات سے بھی لیس ہوں گےمثلا ایک انسان میں  جیتے جیسی پھرتی شیر کی طرح بہادر کتے جیسی  قوت شامہ اور ہاتھی جیسی حساسیت کے یکتا مالک ہوں گے ۔اور آج کے انسان کے مقابلے میں  انکی حیثیت ایسے ہو گی جیسا کہ ہمارے مقابلے میں بندر اور بن مانس کی ہے ۔آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے اس سے پہلے آ پ کو ٹرانسجینک کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ٹرانسجینک  سے مراد کسی ایک جاندار کے چیز کسی دوسرے جاندار میں منتقلی ہے ہم جانتے ہیں کہ ایک قسم کے تمام جانداروں کی خصوصیات بھی ایک جیسی ہوتی ہیں کیونکہ ان کے جینز ایک جیسے ہوتے ہیں مثلا اگر بلی  کی مثال لیں تو بلیاں اندھیرے میں بھی دن کی طرح دیکھ سکتیں ھیں او ران کے پٹھوں کی غیر معمولی لالچ کی وجہ سے اونچی سے اونچی چھت سے چھلانگ لگانے پر بھی آرام سے اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدرت نے مختلف جانداروں کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے لہذا ان سب کے جینز لے  کہ انہیں انسانی جینز کے ساتھ ملا کر ایسے انسان پیدا کیے جاسکتے ہیں جو کہ ان تمام خصوصیات کے مالک ہوں گے جو کہ مختلف جانداروں میں پائی جاتی ہیں ۔بالکل ایسے ہی جیسے ہم ایک پودے پر  کسی دوسرے پودے کی قلم لگاکر نئے خصوصیات رکھنے والا ایک پودا ا گا سکتے ہیں۔

 عالمی ادارہ ٹرانس  ہیومنسٹ کے بانی نک بوسٹم   ٹرانس ہیومن ٹرانسفیوژن کو انسانیت کے لیے لازم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں لاکھوں انسان مختلف بیماریوں کی وجہ سے مرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ادویات میڈیکل اور ویکسین کی تیاری میں بھی سالانہ ایک کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے جب  کہ اس کے بعد ایک انسان میں بہت سی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت عام انسان سے زیادہ ہوگی۔ اور اس کی عمر زیادہ ، جسم طاقتور  اور زیادہ دماغی قوتوں کا مالک ہوگا اور آج کے انسان سے کہیں زیادہ ذہین ہوگا اس کے علاوہ مزید کہتے ہیں کہ ہم انسان ہر طرف سے احساسات میں گھرے ہوئے ہیں جو آج ہم ہر وقت کسی ایک ہی احساس جیسے خوشی یا غم کے زیر اثر نہیں رہ سکتے جبکہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ انسان  میں اداسی یا غمی جیسے جذبات کو یکسر ختم یا کم کیا جا سکے گا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض جانور سپر نیچرل چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جن میں آلو اور بلی کا خاص طور پر نام لیا جاتا ہے لہذا اگر ایسے جانوروں کے جینز انسانوں کے جینز کے ساتھ ملا کر  ٹرانسفارمر انسان پیدا کیے جائے تو شاید وہ فرشتوں اور جنوں سے بھی بات کرنے کے قدرتی طور پر  مالک ہوں گے۔ان کی  نظر ٹرانس ہیومنز سب سے ذیادہ لمبی عمروں کے مالک ہوں گے۔  ٹرانس ہیومنز کے بعد اگر ہم ٹرانسجینک  کی بات کریں تو اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ٹرانسجینک  میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہیں جن میں سے ایک ہے ملٹری اور دوسرا ہے فارماسوٹیکل کا ادارہ ۔امریکی ملٹری اس وقت ٹرانسجینک   ریسرچ کو فنڈ فراہم کرنے والے ٹاپ تھری  میں شامل ہے جبکہ اس سلسلے میں امریکی ملٹری کا ادارہ ڈارپا پیش  پیش ہے ٹرانسجینک  سے مراد جینز کا باہمی تبادلہ ۔یعنی  جینز کا ایسا تبادلہ جو کہ کسی لیبارٹری میں کیا جائے ۔

ایسا کرنے سے مخلوقات عالم میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں انکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔لیکن اس وقت کے جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ  بھی کائنات کے تاریخ کے حیران کن واقیعات کہلائے جائیں گے۔

اس حوالے سے ڈارپا پہلے ہی کئی کامیاب تجربے کر چکی ہے۔ اور انہوں نے ایک ایسی بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اےملایا گیا ہے ہے اس وقت کی پیداوار سے ان کا مقصد سپائڈر سلک  کا حصول ہے جو کہ مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے جو کہ اس تجربے سے قبل صرف مکڑی کےلعاب سے حاصل کیا جاتا تھا یہ دنیا کا مضبوط ترین   دھاگہ ہے جو کہ نہ صرف انتہائی ہلکا ہے بلکہ اس کی قوت برداشت اور لچک بھی دنیا کی ہر  دھاگے سے بہتر ہے بکری کے ساتھ مکڑی  کے چینز  کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین بھی  شامل ہوتا ہے ماضی میں جو صرف مکڑیوں  سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جا رہا ہے ۔


جو امریکی آرمی نے اپنے لئے نئے ہلکے پھلکے بلٹ پروف جیکٹس نے پیراشوٹ ، نئےبیگ اور نئے جال بنا لیے ہیں جو کہ انتہائی ہلکے اور بڑے سے بڑے بوجھ دینے پر بھی نہیں ٹوٹتے  ٹرانسجینک  کی یہ تحریک بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہی ہے ہے اور اس تحریک کا آغاز ہوئے چند ہی سال ہوئے ہیں لیکن اس وقت دنیا کے تقریبا ہر ملک میں موجود ہے اس کو روزمختلف  طریقوں اور سیمینارز کی مدد سے پھیلایا جا رہا ہے اور ان کی مدد سے  آنے والے وقت کے لئے مختلف تجربات پر غور کیا جا رہا ہے لیکن ان تجربات سے کیا نتائج نکلیں گے وہ بھی کوئی نہیں جانتا ۔