ہمارا دشمن ملک اسرائیل کتنا بڑا ہے ۔اور کیسے کامیاب ہے؟ |
ہمارا دشمن ملک اسرائیل
کتنا بڑا ہے ۔اور کیسے کامیاب ہے؟
یہ بات ہے 1967 کی جب
امریکی جاسوس بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی سمندر میں گشت کر رہا تھا
کہ اسرائیلی طیارے اور
آبدوزیں اس پر ٹوٹ پڑیں
اس حملے میں امریکی جہاز
ڈوبنے سے تو بچ گیا لیکن بمباری سے جہاز بری طرح تباہ ہو گیا
یہ اسرائیل کا امریکہ پر
یک طرفہ اور بلا جواز حملہ تھا
لیکن امریکہ سپر پاور
ہونے کے باوجود اسرائیل سے نہ تو اس کی بازپرس کر سکا اور نہ اس کا بدلہ ہی لے سکا۔
اس کی کیا وجہ ہے؟
کیا وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے آدھے سے بھی آدھے رقبے میں
قائم ایک ملک اپنے سے کئی سو گنا بڑے عرب ملکوں سے طاقتور ہے؟
اگر ایک جملے میں اس سوال
کا جواب دیا جائے تو وہ ہے امریکی سرپرستی
لیکن کہانی صرف اتنی ہی
نہیں ہے
اس کی ایک سیاسی، تاریخی
اور جغرافیائی وجہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دور
میں جرمنی اور پولینڈ میں یہودیوں کا قتل عام ہوا جسے ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے
یہودی دعوے کے مطابق ان
کے ساٹھ لاکھ ہم مذہب ہولوکاسٹ کی بھینٹ چڑھ گئے
ایسے میں برطانیہ نے
انھیں فلسطین کی سرزمین پر آباد ہونے میں مدد دی
برطانیہ کے ساتھ امریکہ
نے بھی اسرائیل کی حمایت کی
اور آج دونوں ممالک
اسرائیل کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں
وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟
اس کی ایک اہم وجہ تو یہ
ہے کہ مغربی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عرب خطے میں صرف اسرائیل ایسا ملک ہے
جو جنگ یا امن دو صورتوں
میں مغربی مفادات کا تحفظ کرے گا
انھیں ترکی، اردن، مصر
حتیٰ کہ سعودی عرب پر بھی یہ بھروسہ نہیں ہے
مغربی ممالک کی اسی
کمزوری کو اسرائیل خارجہ پالیسی کے مہرے کے طور پر استعمال کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ تمام تر
عالمی مذمت کے باوجودعرب ممالک اسرائیل کا بال بھی بھیگا نہیں کر سکے۔
اسرائیل کو امریکی مدد کے
بعد جو چیز دنیا میں سب سے زیادہ طاقت دیتی ہے وہ اس کی ملٹری ٹکنالوجی میں مہارت
ہے
اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ
اور فرانس اپنا جدید اسلحہ اسرائیل کو ترجیحاً فراہم کرتے ہیں
حیرت کی بات یہ ہے کہ
اسرائیل کو اسلحہ دینے والوں میں وہ ممالک بھی شامل ہیں
جو انسانی حقوق یا عالمی
قوانین کی معمولی خلاف ورزیوں پر بھی دوسرے ممالک کا اسلحہ روک لیتے ہیں
مثال کے طور پر2006 کی
لبنان جنگ کے دوران اسرائیلی فضائیہ کے ہاتھوں مارے گئے بچوں کی تصاویر وائرل ہو
رہی تھیں
تب بھی امریکی صدرنے
اسرائیل کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی نہیں روکی تھی
بلکہ تنقید کرنے والوں کا
منہ یہ کہہ کر بند کر دیا تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کو ایف 16 دینے کا معاہدہ توڑ
دیا تو آئندہ کوئی امریکہ پر یقین نہیں کرے گا
حالانکہ صرف 16 سال پہلے
امریکہ نے پاکستان سے پیسے لینے کے باوجود ایف 16 دینے سے انکار کیا تھا
2016 میں امریکہ نے اسرائیل سے
ایک معاہدہ بھی کیا ہے
اس معاہدے کے تحت اسرائیل
کو دس سال کے دوران38 ارب ڈالر کا جدید اسلحہ ملے گا اور وہ بھی بالکل مفت
اسرائیل کے پاس170000
فوج، 652 لڑاکا طیارے اور 2600 سے زائد ٹینک موجود ہیں
اسرائیل کے لڑاکا طیاروں
کے فلیٹ میں ایف 16، ایف 15 اور ففتھ جنریشن کے ایف35 طیارے بھی شامل ہیں
ایف 35 کی خوبی یہ ہے کہ
یہ دشمن کی نظروں میں آئے بغیر ہی اپنے ہدف تک پہنچنے اور صفایا کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں
اسرائیل کی ایکٹیو
ملٹری170000 ہزار ہے
کہنے کو تو یہ بہت کم ہے
لیکن اسرائیل کے پاس ساڑھے 4 لاکھ ریزرو آرمی بھی موجود رہتی ہے
اس کے علاوہ اسرائیل کی
تمام آبادی کیلئے جنگی تربیت بھی لازم ہے
اسرائیل کی آبادی پاکستان
سے20 گنا کم لیکن دفاعی بجٹ ڈیڑھ گنا زیادہ ہے
پاکستان کا دفاعی بجٹ
ساڑھے 9 ارب ڈالر کے قریب ہوتا ہے
جبکہ اسرائیل کا بجٹ
ساڑھے 15 ارب ڈالر ہے
تاہم ہتھیاروں کی تعداد
کے لحاظ سے پاکستان کو اسرائیل پر برتری حاصل ہے
کی انٹرنیشنل پاور رینکنگ
میں اسرائیل پندرھویں جبکہ پاکستان تیرھویں بڑی فوجی طاقت ہے
اس رینکنگ میں چین کا
تیسرا اور بھارت کا چوتھا نمبر ہے
اسرائیل نے امریکہ اور
یورپ کی مدد سے جنگی ہتھیار بنانے کی بہت بڑی انڈسٹری بھی لگا لی ہے۔
تل ابیب ہتھیار بیچنے
والا دنیا کا آٹھواں اور ڈرون برآمد کرنے والا پہلا بڑا ملک بن چکا ہے
اس کی اسلحے کی برآمدات 9
ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں
اسرائیل جنگی روبوٹس، رات
میں طویل فاصلے تک دیکھنے والے آلات، دیوار کے پار انسانی نقل و حرکت جانچنے والے
سنسربھی خود تیار کرتا ہے
اسرائیل کے پاس اپنا
میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم بھی ہے
جو میزائلوں اور راکٹس کو
ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہوا میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اسرائیل کے پاس ایٹمی
ہتھیار بھی ہیں لیکن چونکہ اس نے ابھی تک کوئی ہاٹ ٹیسٹ نہیں کیا اس لیے اُسے
اعلانیہ ایٹمی طاقت نہیں سمجھا جاتا
اسرائیلی فوج میدان جنگ
میں دشمن کا انتہائی تیزرفتاری سے صفایا کرنے کے لیے مشہور ہے
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں
اسرائیلی ائرفورس نے ایک ہی دن میں مصرکے350 سے زائد طیاروں کو اڑنے سے پہلے ہی
تباہ کر دیا تھا
جبکہ اردن کی تمام فضائی
قوت اور شامی فضائیہ کے طیاروں کی بڑی تعداد بھی تباہ کردی تھی
یوں اسرائیل نے صرف چھے
دن میں یہ جنگ جیت لی
اس جنگ میں اسرائیل بیت
المقدس پر بھی قابض ہو گیا اور تمام فلسطینی علاقہ بھی اس کے کنٹرول میں چلا گیا
اسرائیل کی معاشی طاقت
بھی دیکھتے ہیں
دنیا بھر میں موجود دولت
مند یہودی اور عالمی ادارے اسرائیل میں پیسہ لگاتے ہیں
دنیا کے امیر ترین لوگ
جیسے وارن بفے اور بل گیٹس اسرائیل کو سرمایہ کاروں کی جنت قرار دیتےہیں
ورلڈ بینک کے مطابق
دوہزار سولہ میں اسرائیل میں 12 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی
جبکہ اس کے ہمسائیہ ممالک
میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری مصر میں ہوئی
جو صرف 8 ارب ڈالر تھی
ٹکنالوجی میں مہارت اور
عالمی سرمایہ کاروں کی مدد سے اسرائیل عرب خطے کی بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے
آئی ایم ایف کے مطابق
اسرائیل 351 ارب ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی 33ویں بڑی معاشی طاقت ہے
اس کے ہمسائے ترکی کا جی
ڈی پی 850ارب ڈالر اور سعودی عرب کا 684 ارب ڈالر ہے
حوالے کے لیے بتاتے چلیں
کہ پاکستان کا جی ڈی پی آئی ایم ایف کے مطابق 304ارب ڈالر ہے
اسرائیل میں پانی کم ہے
اس لیے شمسی توانائی سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرتا ہے
انتہائی کم پانی کے
باوجود اسرائیل زراعت میں خود کفیل ہے
اب اسرائیل نہ صرف اپنے
لیے خوراک پیدا کرتا ہے بلکہ باقی عرب ممالک کو بھی سبزیاں اور پھل برآمد کرتا ہے
اسرائیل دنیا کی کتنی بڑی
سیاسی طاقت ہے؟
اس کا اظہار ابھی کچھ دن
پہلے اس وقت ہوا جب امریکہ نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا
"آج ہم آفیشلی امریکی
سفارت خانہ یروشلم میں کھول رہے ہیں، سب کو مبارک ہو
پاکستان اور ترکی نے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف قرار داد پیش کی جسے منظور کر لیا
گیا
حتیٰ کہ مغربی ممالک اور
امریکہ کے قریبی اتحادیوں نے بھی امریکی اقدام کی مخالفت کی
لیکن اسرائیل پراس کا کچھ
اثر نہ ہوا
س سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ اسرائیل امریکی مدد کے ساتھ دنیا کی کتنی بڑی سیاسی طاقت ہے
جی ہاں امریکی مدد کے
ساتھ۔ تنہا نہیں
لیکن اسرائیل کی یہ طاقت
امریکی مدد کے باوجود لامحدود نہیں ہے
1973کی جنگ میں اسرائیل، عرب
فوجوں کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچا تھا
یہ وہی جنگ ہے جس میں
پاکستانی پائلٹس نے اسرائیلی طیارے مار گرائے تھے
اس جنگ کے بعد اسرائیل کو
مصر کا علاقہ صحرائے سینا بھی خالی کرنا پڑا تھا
اسی طرح 2006 کی لبنان
جنگ میں اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کو تباہ کرنے کے لیے پوری قوت جھونک دی
لیکن وہ اس مشن میں ناکام
رہا اور اسے پانچ ہفتے بعد مجبوراً فوج پیچھے ہٹانا پڑی
اسرائیل کی ایک اور
کمزوری عربوں کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے
اسرائیل میں 65 لاکھ یہودی
آباد ہیں
جبکہ اسرائیل اور فلسطین
میں عرب باشندوں کی تعداد 55 لاکھ تک جا پہنچی ہے
جن میں اکثریت مسلمانوں
کی ہے
اس کے مقابلے کیلئے
اسرائیل فلسطینی علاقوں میں بھی زبردستی یہودی آبادیاں بسا کر آبائی شہریوں کو بے
دخل کرتا جا رہا ہے
کسی ملک کی طاقت اس کے
دوستوں اور دشمنوں کی تعداد سے بھی ناپی جاتی ہے
اسرائیل کے سب سے قریبی
دوست وہ ممالک ہیں جن سے اس نے سٹریٹیجک الائنس کر رکھا ہے
ان میں یورپی یونین بشمول
برطانیہ، امریکہ اور غیر اعلانیہ طور پر انڈیا بھی شامل ہیں
اس کے تجارتی اور سفارتی دوستوں
میں مصر،اردن اور انڈیا سرفہرست ہیں
جبکہ اسرائیل کے عرب دنیا
کے اہم ترین ملک سعودی عرب سے بھی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں
دوسری طرف دنیا کے31
ممالک ایسے ہیں جو اسرائیل کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے
اس کے علاوہ شام، لبنان،
ترکی، عراق اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں اسرائیل مخالف جذبات
بہت شدید ہیں۔
البتہ ایران وہ ملک ہے جو
سرکاری سطح پر اسرائیل کے خاتمے کے درپے ہے
تو مختصر یہ کہ اسرائیل
امریکی آشیرباد، معاشی طاقت اور ان تھک محنت سے حاصل کی ہوئی ٹکنالوجی کے باعث
دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے
لیکن اس کی کمزوریاں بھی
اتنی ہی بڑی ہیں جتنی اس کی طاقت
تمام ہمسایہ ممالک سے
خراب تعلقات، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں
اور صرف امریکی تعاون کے
بل بوتے پر قائم رہنا اس کی ایسی کمزوریاں ہیں جو کسی بھی وقت اسرائیل کے وجود
کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں
اسرائیل کی طاقت اور
کمزوریوں کے بارے میں آپ نے جانا
لیکن اسرائیل ایک عام ملک
نہیں ہے
اسرائیل کے قیام سے اب تک
کی کہانی میں مذہب، عالمی سیاست اور عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں، یہ سب کچھ شامل
ہے
اسرائیل کیسے قائم ہوا؟
کیا یہ ہمیشہ قائم رہ
سکتا ہے؟
امریکہ اس کی اتنی مدد
کیوں کرتا ہے؟
اور مسلمانوں، عربوں
فلسطینیوں سے اسرائیل کا اصل جھگڑا کیا ہے؟
اس طرح کی مزید معلومات
جاننے کے لئے ہمارے پیج کو لوئیک کریں اور معلومات کو دوسروں کے ساتھ شیئر بھی
کریں۔
Post a Comment
Post a Comment