History of China۔ How did Great Britain Master China?
یہ بات ہے تیرہویں صدی کی جب مشہور اطالوی سیاح
مارکوپولو چین پہنچا تھا۔
اس نے یورپ واپس جا کر چین کی دولت کے ایسے ایسے
قصے سنائے کہ یہ ملک یورپی نوجوانوں کے خوابوں کی جنت بن گیا۔
اس دور میں ہندوستان کی دولت کے قصے بھی بہت
مشہور ہوئے۔
یورپی قومیں ان ممالک تک پہنچنے کیلئے زور
لگانے لگیں۔
ہندوستان تک سمندری راستہ کھوجنے کی کوشش میں
کولمبس امریکہ دریافت کربیٹھا۔
بعد میں یورپی طاقتوں کو ہندوستان تک تو رسائی
مل گئی لیکن چین انکے حملوں سے بچا رہا۔
مگر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔
چین پر حملے بھی ہوئے بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن
پھر چین میں ایک لانگ مارچ ہوا جس نے چین ہی کی نہیں دنیا کی تاریخ بھی بدل ڈالی-
ایک افیون زدہ چین، اپنوں سے لڑتا بھڑتا چین
عالمی طاقت کیسے بن گیا؟
میں ہوں اسامہ غازی اور آپ دیکھ رہے ہیں دیکھو
سنو جانو کی برینڈ نیو سیریز ہسٹری آف چائینا ’’افیون سے سی پیک تک‘‘
اور ہاں چین کی عظیم الشان تاریخ جاننے سے
پہلے ۔ دیکھو سنو جانو کو سبسکرائب ضرور کرلیں۔
اٹھارہ سو چونتیس میں برطانوی بحری جنگی جہاز
چین بھی پہنچ ہی گئے۔
لیکن ان برطانوی فوجیوں نے چین کے مال و دولت
اور ترقی کے جو قصے سنے تھے وہ اب ماضی کا حصہ بن چکے تھے۔
انیسویں صدی کا چین عالمی طاقت تھا نہ ہی دنیا
میں کوئی اس کی بات سنتا تھا۔
زیادہ تر چینی باشندے افیون کے نشے میں دھت
تھے-
اور قوم کے سنجیدہ لوگ ان کی حالت زار دیکھ کر
اور اپنی عظمت رفتہ کو یاد کر کے آنسو بہاتے تھے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم زوال کا
شکار ہو
تو وہ حال کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بجائے
ماضی کے قصے سنانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتی ہے۔
ان حالات میں جب برطانوی بحری بیڑہ چین پہنچا
تو برطانوی تجارتی افسر لارڈ ولیم جان نیپئر
نے چینی حکومت سے تجارتی معاہدے کے لیے دباؤ ڈالا۔
اس سے پہلے چین باقی دنیا سے رابطوں سے گریز
کرتا تھا۔
کیونکہ چین کو اپنی ثقافت اور تاریخ پر بہت
مان تھا۔
چینی سمجھتے تھے کہ ساری دنیا کے لوگ غیرمہذب
اور وحشی ہیں
اور ساری تہذیب اور ترقی صرف چین نے کی ہے۔
اور اگر باقی دنیا میں کوئی ترقی ہے بھی، تو
وہ چینیوں کی ہی سکھائی ہوئی ہے۔
لیکن اٹھارہ سو چونتیس کا چین اتنا کمزورہو
چکا تھا کہ وہ غیرملکی وحشیوں کا راستہ نہیں روک سکتا تھا۔
چینی حکام نے لارڈ نیپئر سے ملاقات سے انکار
کر دیا تو برطانوی بحری جہازوں نے دو چینی قلعوں پر بمباری شروع کردی۔
اگرچہ لارڈ نیپئرکے انتقال کی وجہ سے یہ
معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔
لیکن چین کا ساحلی شہر کینٹن برطانوی تجارت کی
آماجگاہ بن گیا۔
اس دور میں افیون کی تجارت انتہائی منافع بخش
کاروبار تھا اور چین میں اس کی بہت بڑی مارکیٹ موجود تھی۔
انیسویں صدی میں توچینیوں نے اتنی افیون
استعمال کی کہ اس صدی کو چین کیلئے سنچری آف شیم یا ذلت کی صدی کہا جاتا ہے۔
چین میں افیون کی تجارت پر پابندی تھی۔ افیون
بیچنے اور نشہ کرنے والوں دونوں کیلئے موت کی سزا مقرر تھی۔
اب انگریزوں نے افیون کی تجارت شروع کی تو چینی
حکومت سخت پریشان ہو گئی اور اس نے برطانیہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔
اپنے ماضی پر ناز ہونے کی وجہ سے چینی حکومت
کو اب بھی لگتا تھا کہ وہ برطانیہ جیسی سپرپاور کو شکست دے سکتی ہے۔
لیکن یہ غلط فہمی بھی جلد ہی دور ہونے والی تھی۔
اٹھارہ سو انتالیس میں چینی حکام نے افیون سے
بھرے بیس ہزار صندوق تباہ کئے جن میں چودہ سو ٹن افیون بھری ہوئی تھی۔
اس سے چین اور برطانیہ کے تعلقات خراب ہو گئے۔
اس دوران ایک اور واقعہ یہ ہوا کہ ایک بحری
جہاز کے برطانوی ملازموں نے ایک چینی شہری کو قتل کردیا۔
جب چینی حکام نےان قاتلوں پر چینی قوانین کے
تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تو برطانیہ بہادر کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔
برطانوی فوجوں نےچین پر حملہ کر دیا۔ إاس جنگ
میں چین کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست ہوئی۔
اٹھارہ سو بیالیس میں برطانیہ نے چین سے
زبردستی ایک معاہدے پر دستخط کروا لئے جو چین کیلئے انتہائی ذلت آمیز تھا۔
معاہدے کی اہم شرائط یہ تھیں۔
ایک۔ چین ہانگ کانگ کا جزیرہ برطانیہ کے حوالے
کر دے گا۔
دو۔ مزید 5 چینی بندرگاہوں کو برطانیہ سے
تجارت کیلئے کھول دیا جائے گا۔
تین۔ چین میں آنے والے تمام برطانوی سامان پر
ٹیکس کم سے کم ہو گا۔
چار۔ برطانیہ کو چین میں اپنا سفارتخانہ
کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔
پانچ۔ یہ معاہدہ انگریزی اور چینی دونوں
زبانوں میں لکھا جائے گا
لیکن انگریزی زبان والے متن کو چینی زبان پر
فوقیت دی جائے گی۔
برطانیہ کے ہاتھوں شکست اور ذلت آمیز معاہدے
نے سارے چین کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہ چینی قوم جس نے دنیا کو جنگی حکمت عملی
سکھائی، دنیا کو بارود سے متعارف کرایا، بندوقیں اور توپیں بنانا سکھایا،
جس نے بارودی سرنگوں اور ہینڈگرنیڈز کی شروعات
کی، جس نے راکٹ لانچرز اور مشین گن کا تصور دیا،
وہ قوم اپنے سے سینکڑوں گنا چھوٹے سے ملک سے
ہار جائے گی؟
یہ بات کسی چینی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
چین میں برطانیہ کے خلاف بدلے اور نفرت کے
جذبات کروٹیں لینے لگے۔
لیکن ابھی اس لہر کو انقلاب کے شعلوں میں
بدلنے کے لیے مزید ایندھن کی ضرورت تھی۔
اور یہ ایندھن بھی غیر ملکی طاقتوں نے مہیا کیا۔
ہوا یوں کہ 1856 میں چینی بندرگاہ کینٹن کے
نزدیک چینی حکام نے ایک برطانوی بحری جہاز جس کا نام ایرو تھا
اسے قبضے میں لے لیا اور اس کے چینی عملے کو
گرفتار کر لیا۔
چینی حکام کو شک تھا کہ یہ جہازبحری ڈاکو
استعمال کر رہے ہیں۔
جہاز کے کپتان کی شکایت پرہانگ کانگ میں موجود
برطانوی بحریہ نے کینٹن شہر پر حملہ کردیا۔
بعد میں فرانس اور امریکہ بھی اس جنگ میں شامل
ہو گئے۔
چینی شہروں اور ساحلی قلعوں پر شدید بمباری کی
گئی۔
لیکن اس میں ایک حیران کن بات اور بھی ہوئی۔
برطانیہ چین کو سزا دینے کا ارادہ رکھتا تھا
اوراس کی فوجیں بڑی تعداد میں چین کی طرف بڑھ رہی تھیں
لیکن اس دوران ہندوستان میں اٹھارہ سو ستاون کی
جنگ آزادی شروع ہو گئی۔
چنانچہ وہ فوجیں جو چین کی طرف بڑھ رہی تھیں
انہیں ہندوستان بھیج دیا گیا۔
یوں چین ایک بڑے حملے سے بچ گیا۔ البتہ جنگ
جاری رہی۔
برطانوی اور فرانسیسی فوجوں نے کینٹن شہر کے
علاوہ چینی دارالحکومت پیکنگ پربھی قبضہ کرلیا
اور چینی شہنشاہ ژیان فینگ دارالحکومت سے فرار
ہو گیا۔
چین نے پھر شکست قبول کر لی اور برطانیہ نے چین
کے ساتھ پرانے معاہدے کی جگہ ایک نیا معاہدہ کرلیا۔
اس معاہدے کی شرائط چین کے لیے اور بھی ذلت آمیز
تھیں۔
اس شکست کے بعد چینی حکومت اتنی کمزور ہو گئی
کہ اس نے دوبارہ کبھی عالمی طاقتوں کو چیلنج نہیں کیا۔
لیکن عالمی طاقتوں نے چین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے
کا سلسلہ جاری رکھا۔
اٹھارہ سو چوراسی میں فرانس نے ویتنام پر حملہ
کر کے اسے چین سے چھین لیا۔
اس جنگ میں چین کو سب سے ذلت آمیز شکست بحری
جنگ میں ہوئی
جہاں فرانسیسی بحری بیڑے نے چین کے دس سے زائد
بحری جہاز صرف پینتالیس منٹ میں ڈبو دیئے۔
اس زمانے میں یہ حالت ہو چکی تھی کہ چین بڑی
طاقتوں کے لیے ایک پیزہ بن چکا تھا جس کے الگ، الگ حصے کئے جا رہے تھے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، روس اور
امریکہ نے اپنی، اپنی مرضی کےعلاقے منتخب کر لئے تھے
اور عملی طورپر ان علاقوں پر وہی قابض تھے۔
تاہم چین کو نام کی حد تک آزادی حاصل تھی کیونکہ
بڑی طاقتوں کے لیے چین کے پورے رقبے کو ہڑپ کرنا ناممکن تھا۔
اس لئے انہوں نے تمام ساحلی علاقوں کو اپنے
کنٹرول میں کر لیا تھا۔
چینی عوام اس تباہی کو دیکھ رہے تھے اور اندر
ہی اندر کڑھ رہے تھے۔
لیکن انہیں اصل پریشانی تب ہوئی جب غیرملکیوں
نے ان کا مذہب بھی بدلنا شروع کردیا۔
اٹھارہ سو چھپن کی جنگ کے بعد ہزاروں عیسائی
مشنری چین میں داخل ہو چکے تھے اور چینیوں کو عیسائی بنانے لگے۔
چینی بچوں کوسکولوں میں یہ تربیت دی جانے لگی
کہ چینی قوم کے رسم و رواج غلط ہیں اور صرف عیسائیت
سے ہی ان کی نجات ممکن ہے۔
یوں یہ چینی بچے بڑے ہو کر اپنے ہی کلچر سے
نفرت کرنے لگے۔
ان کے تہوار، لباس حتیٰ کہ کھانا پینا بھی
مغربی انداز اختیار کر گیا۔
یوں یہ لوگ چینی معاشرے سے کٹ گئے اور باہمی
نفرت کی دیواریں بلند ہونے لگیں۔
غیرملکی فوجوں کی یلغار، افیون کے نشے سے قوم
کی تباہی
اور اپنے رسم و رواج کے خلاف عیسائی مشنریوں کی
مہم نے چینی عوام کو بے چین کردیا۔
ستم بالائے ستم تو یہ تھا کہ چینی حکومت اور
سرکاری افسر بھی کرپٹ ہو چکے تھے۔
چین میں جرائم اورغربت بھی عام تھی۔
لیکن اٹھارہ سو چورانوے میں جاپان سے ہونے والی
جنگ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
ہوا کچھ یوں کہ جاپانی فوج نے کوریا پر حملہ کیا
جو اس زمانے میں ایک ہی ملک تھا۔
چین کوریا کا حامی تھا۔ اس نے کوریا کو بچانے
کے لیے اپنی فوج وہاں بھیجی جو اس کی تاریخی غلطی ثابت ہوئی۔
چینی فوج کو جاپانیوں کے ہاتھوں بھرپور مار پڑی۔
بلکہ جاپانیوں نے چین کو سبق سکھانے کے لیے اس
سے تائیوان کا جزیرہ بھی چھین لیا۔
اس جنگ سے پہلے تک چینی حکومت اپنے عوام کو یہ
کہہ کر تسلی دیتی تھی
کہ چین میں موجود غیرملکی فوجیں کسی جنگ کی
صورت میں چین کی مدد کریں گی۔
لیکن جاپان سے ہونے والی لڑائی نے اس خوش فہمی
کا پول کھول دیا۔
غیرملکی طاقتیں بظاہر تو اس جنگ میں چین کے
ساتھ اور جاپان کے خلاف تھیں۔
لیکن عملی طور پر انہوں نےچین کی کوئی مدد نہیں
کی۔
چین کی مدد کے لیے امریکی اور برطانوی بحری بیڑے
آئے نہ ہی روس کے پیدل فوجی دستے پہنچے۔
حالانکہ ان ممالک کی فوجیں چین میں موجود تھیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ غیرملکی طاقتوں نے چینی
فوج کو جو ہتھیار فراہم کئے تھے وہ بھی جنگ میں بیکار ثابت ہوئے۔
مثال کے طور پر بحری جنگ کے دوران چینی ایڈمرل
ایک جرمن جنگی جہاز استعمال کررہے تھے۔
جب جہاز نے پہلا گولہ فائر کیا تو اس کا ڈیک
ٹوٹ گیا اورایڈمرل نیچے گر کرزخمی ہو گئے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ اس جنگ کے دو سال بعد
اٹھارہ سو ستانوے میں جرمن فوج نے چینگ ڈو کی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا۔
اگلے برس برطانیہ نے چین کو مجبور کر کے ہانگ
کانگ کا علاقہ جو پہلے ہی گوروں کے قبضے میں تھا،
مزید ننانوے برس کی لیز پر اپنے نام کر لیا۔
باسٹھ سال کے کشت و خون، افیون کے نشے اور غلطیوں
سے چینی عوام نے یہ سبق سیکھ لیا تھا
کہ عالمی طاقتیں کسی کی دوست نہیں ہوتیں بلکہ
ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق ہی فیصلہ کرتا ہے۔
اس لئے غیرملکی طاقتوں کے بھروسے پر مستقبل کی
منصوبہ بندی کرنا بیوقوفی ہے۔
صرف اپنے زور بازو کا بھروسہ ہی اصل بھروسہ
ہے۔
اس سوچ کے ساتھ چینی عوام میں ایک بیداری کی
لہر پھیلنا شروع ہوئی۔
اس کا پہلا نتیجہ تو یہ نکلا کہ چینیوں نے
سامنے نظر آنے والے غیر ملکی آقاؤں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔
یہ باکسرز انقلاب کی شروعات تھی۔
باکسرز انقلاب کیا تھا؟ چین کا پہلا انقلاب کیسے
چند سو لوگوں کے ہاتھوں بری طرح پٹ گیا؟
چینی ملکہ نے اپنے ہی شہری کیوں قتل کرنے شروع
کر دئیے؟
یہ سب آپ پڑھیں گے اگلی قسط میں۔
Post a Comment
Post a Comment