دوستو! کئی سو سال بعد جدید سائنس
نے بھی بڑی مچھلیوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں وہل
مچھلی کہا جاتا ہے ہے بلکہ کچھ تحقیقاتی
اداروں نے ان پر تحقیق کرنے کے بعد اپنی باقاعدہ طور پر رپورٹ بھی شائع کی ہے ویل
دراصل مچھلیوں کے دیو ہیکل خاندان کا نام
ہے ۔ اس لئے یہ جاننے سے پہلے کہ حضرت یونس
علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں کیسے زندہ رہے ہمیں پہلے اس آبی جانور کے قد و قامت اور مخصوص عادات کو
جاننا ہو گا جس سے اس معجزہ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ویل دراصل مچھلیوں کے وسیع
خاندان کا نام ہے اس خاندان میں،،، بڑی بوتل کی ناک والی ویل، قاتل وہل ۔ بلو وہیل
اور ڈولفن وغیرہ شامل ہیں ویل باقی تمام بچوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں آپ پر حیرانی ہوگی یہ
پستان رکھنے والا جانور ہے سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکا خون گرم ہوتا ہے اس کے منہ کے قریب دونتھنے ہوتے ہیں جو تیرتے
وقت عموما پانی سے باہر ہوتے ہیں ۔
چناچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔جبکہ انسان زیادہ سے زیادہ صرف ایک منٹ تک سانس لیے بغیر پانی میں زندہ رہ سکتا ہے حتیٰ کے تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہوئے اڑھائی منٹ کے اندر اندر سطح پر واپس آنا ہوتا ہے ۔۔۔اس کے برعکس کوئیل ویل جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں چالیس منٹ اور سپرم ویل، ایک گھنٹے سے زائد بغیر سانس لئے پانی میں رہ سکتی ہے۔ ویل کی جسامت ۴ تا ۱۰۰ فٹ اور وزن ایک سو پونڈ تا ڈیڑھ سو ٹن ہوتا ہے ۔ایک مرتبہ اٹھانوے فٹ لمبی وہیل کو تولہ گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر نہیں نکلا
اس کی دم ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے جس کا ایک سرا اوپر کی طرف ہوتا ہے اسکی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب موچھوں کی طرح لمبے لمبے بال ہوتے ہیں ۔ جبکہ ویل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں۔اکثر ا سے شکار پکڑنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ اس کا بس اپنا بڑا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے جس سے بے شمار مچھلیاں آبی جانور اپنے آپ اس کا چارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں
اور اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے تو نیلی ویل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن چھ پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے دوستو! ویل کا منہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس پچیس آدمی ایک ہی ساتھ بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کا منھ بہت بڑا اور وسیع ہوتا ہے جس سے یہ ایک انسان کو باآسانی نکل سکتی ہے اور بعد میں اسے اُگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔اس کے حلق میں جھریاں ہوتی ہیں اور جب اس سے معمول سے زیادہ چیز نگلنا پڑ جائے تو جھریوں کے کھلنے سے اسکا منہ وسیع تر ہو سکتا ہے ۔اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیا کو بآسانی نگل سکتی ہے۔
دوستو! اقرآن پاک کی تین سورتوں میں
حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لینے کا واقعہ بیان ہوا ہے بعض ماڈرن حضرات اس واقعے کی اصلیت کو شک کی نظر سے
دیکھتے ہیں کہ آخر آپ علیہ السلام اتنے دن
تک بغیر کھائے پیئے کس طرح زندہ رہے لیکن بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ عقل سے برتر
ہوتے ہیں ۔ جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران رہ جاتے ہیں اور ان کو معجزہ بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی محدود
عقل میں نہیں آتے ۔لیکن بحر حال یہ ایک حقیقت ہے اور اسی حقیقت کے تناظر میں یہاں
چند واقیعات بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اموز جان ونسن نے حضرت یونس ؑ کے مچھلی کے پیٹ
کے بارے میں ایک تھیو لوجیکل آرٹیکل پیش کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ
میں سانس لینے کے لئے کافی اکسیجن ہو تی
ہے۔جو کسی جاندار کو زندہ رہنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ہے جو
انسان کے لیے بخار کا درجہ ہے ۔ 1890 میں ایک جہاز فوک لینڈ کے قریب مچھلی کا شکار کر
رہا تھا اسکا ایک شکاری سمندر میں گرا اور
دیکھتے ہی دیکھتے ایک ویل مچھلی نے اسے نگل لیا ۔بڑی کوشش کے بعد دو روز بعد یہ
مچھلی پکڑی اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ تھا۔ البتہ اس کا جسم مچھلی کی
اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہو گیا تھا اور 14 دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔
اس کے علاوہ 1958 میں ستارہ مشرق نامی جہاز فاک
لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا اس کاایک بارکلے نامی ایک ملاح سمندر میں گرا
جسے ایک مچھلی نے نگل لیا ۔پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا کے مچھلی کے پیٹ میں
حرکت محسوس ہوئی انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی پیٹ چیرا تو ان
کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا ۔اس نے اپنی آپ بیتی سنائی
۔کہ جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم
سے پیدا ہورہی ہیں تھی میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا اچانک مجھے ایک تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ میں نے اپنے آپ
کو ایک تاریک تنگ راستے سے گزرتا ہوا
محسوس اس کی کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ ایک وسیع تر جگہ میں ہوں اردگرد نرم
نرم اور چکنی دیواریں کھڑی ہیں ۔ میں نے
حقیقت محسوس کی کہ میں ایک ویل مچھلی کہ پیٹ میں ہوں۔اطمنان حاصل کیا اور موت کرنے
کے لئے تیار ہونے لگا ۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا سانس لینے
پر ہر بارایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ
جاتی۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا
اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں ۔اب کہ جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے
کپتان کے کمرے میں پایا ۔بارکلے کو ہسپتال مین میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل
طور پر صحتیاب ہو گیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں
اس خبر نے تہلکہ مچادیا ۔کئی نامہ نگاروں
نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنس دان ایم ڈی کال نے مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد
لکھا کہ اس حقیقت کےعیاں ہونے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ
السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حرف با حرف صحیح
ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے ۔ دوستو! اگر آپ کو
یہ معلومات اچھی لگی ہوں تو اپنے دوستوں کے
ساتھ ضرور شیئر کریں۔
Post a Comment
Post a Comment