Scientific Research On The Story of Hazrat Younus A.S

دوستو !حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالی نے نینوا یعنی موجودہ عراق کا شہر موصل اس کی ایک  بستی کی ہدایت کے لیے
 بھیجا تھا۔  نینوا میں آپ کئی سال تک لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور جب وہ قوم ایمان  نا لایا تو آپ علیہ السلام ان کو عذاب آنے کی خبر سنا کر تیونس کی طرف جانے کے لیے نکلے حضرت یوسف علیہ السلام کا قوم سے ناراض ہو کر نکلے تو قوم نے آپ کی غیر موجودگی میں توبہ کر لی  دوسری طرف آپ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبور کرنے کے لیے اسرائیل کے علاقے یافا سے کشتی میں سوار ہوئے۔ لیکن کچھ  دور جا کر کشتی دریا کی موجوں میں پھنس گئی۔ اور اس وقت کے دوستور و  رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جا رہا ہو، اور کشتی میں سوار ہو تو وہ کشتی اس وقت تک کنارے نہیں پہنچتی جب تک کہ اس غلام کو کشتی سے نہ اتاردیا جائے ۔بھنور میں کشتی پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا ۔جو حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا سب کہنے لگے نہیں ان کے چہرے پر سجدوں کے نشان ہیں  یہ ایسا نہیں کر سکتے تھے پھر قرعہ ڈالا گیا پھر حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا اور تین بار قرعہ ڈالنے  پر قرعہ آپ کے نام ہی نکلا تو اب آپنے فرمایا کہ میں وہ غلام ہوں جو اپنے آقا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ہو آپ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔اتنے میں اللہ تعالی نے مچھلی کو حکم دیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو بغیر نقصان پہنچائے نگل لے ۔ اور  اس طرح حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں آگیے اور یہ آپ  پر ایک کڑا امتحان تھا حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ذوالنون اور صاحب الحوت بھی کہا جاتا ہے اور نون اور حوت  دونوں کے معنی مچھلی کے ہیں۔  اس سارے واقعے کو اللہ تعالی  قرآن پاک میں اس طرح سے ارشاد فرماتا ہے ۔’’اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا، یاد کروکہ جب وہ بگڑ کر  چلا گیا تھا  اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر  گرفت نہیں کریں  گیں ‘‘دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کی وجہ سے حضرت یونس علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ آپ مر چکے ہیں ۔آپ نے فورا بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا اور توبہ استغفار کی ۔کیونکہ وہ وحی الہی  کا انتظار کئے بغیر اور  اللہ تعالی سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینوا سے نکل آئے تھے ۔ان کی معافی کو   کو قرآن پاک کی سورۃ انبیاء میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔ترجمہ  ۔۔آخر کو اس نے تاریکیوں میں پکارا’’ نہیں ہے  کوئی خدا  مگر تو ، پاک ہے تیری ذات بے شک میں نے قصور کیا‘‘دوستو ! جب اللہ تعالی نے حضرت یونس علیہ السلام کی پرسوز آواز کو سنا مچھلی کو اللہ کی طرف سے  حکم ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے اُگل دے ۔ چنا نچہ مچھلی نے  دریا کے کنارے حضرت یونس علیہ السلام کو چالیس روز بعد زندہ سلامت اُگل دیا ۔ وہ ایسی  ویران جگہ تھی جہاں کوئی درخت نہ تھا اور نہ  کوئی سبزہ ،بالکل چٹیئل  میدان تھا جب کہ حضرت یونس علیہ السلام بہت کمزور ہو چکے تھے حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت یونس نومولود بچے کی طرح نا تواں تھے ۔ آپ کا جسم بہت نرم و نازک ہو چکا تھا اور آپ کے جسم پر کوئی بال بھی نہ تھا چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے حضرت یونس علیہ السلام کے قریب کدو کی بیل اُگا دی  تاکہ اس کے پتے آپ پر سایہ کیے رہیں۔ اسی طرح اللہ  کے حکم کے مطابق ایک جنگلی بکری صبح شام  آ کر آپ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ۔ یہ سب  اللہ تعالی کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے ۔ حضرت یونس علیہ السلام کی اس کیفیت کو قرآن پاک کس طرح سے بیان کرتا ہے ہے۔ترجمہ’’ آخر کا ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں  ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا اور اس پر ایک  بیل   دار درخت اُگا دیا ‘‘

دوستو! کئی سو سال بعد جدید سائنس نے بھی بڑی مچھلیوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں وہل  مچھلی  کہا جاتا ہے ہے بلکہ کچھ تحقیقاتی اداروں نے ان پر تحقیق کرنے کے بعد اپنی باقاعدہ طور پر رپورٹ بھی شائع کی ہے ویل دراصل مچھلیوں کے دیو ہیکل  خاندان کا نام ہے ۔ اس لئے یہ جاننے سے پہلے کہ  حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں کیسے زندہ رہے ہمیں پہلے اس  آبی جانور کے قد و قامت اور مخصوص عادات کو جاننا ہو گا جس سے اس معجزہ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ویل دراصل مچھلیوں کے وسیع خاندان کا نام ہے اس خاندان میں،،، بڑی بوتل کی ناک والی ویل، قاتل وہل ۔ بلو وہیل اور ڈولفن وغیرہ شامل ہیں ویل باقی تمام بچوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ  اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں آپ پر حیرانی ہوگی یہ پستان رکھنے والا جانور ہے سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکا خون  گرم ہوتا ہے  اس کے منہ کے قریب دونتھنے ہوتے ہیں جو تیرتے وقت عموما پانی سے باہر ہوتے ہیں ۔

چناچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔جبکہ انسان زیادہ سے زیادہ صرف ایک منٹ تک سانس لیے بغیر پانی میں زندہ رہ سکتا ہے حتیٰ کے تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہوئے اڑھائی منٹ کے اندر اندر سطح پر واپس آنا ہوتا ہے ۔۔۔اس  کے برعکس کوئیل ویل جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں چالیس منٹ اور سپرم ویل،  ایک گھنٹے سے زائد بغیر سانس لئے پانی میں رہ سکتی ہے۔ ویل کی جسامت ۴ تا ۱۰۰ فٹ  اور وزن ایک سو پونڈ  تا  ڈیڑھ سو ٹن ہوتا  ہے ۔ایک مرتبہ اٹھانوے  فٹ لمبی وہیل کو تولہ گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر نہیں نکلا 

Scientific Research On The Story of Hazrat Younus A.S

اس کی دم  ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے جس کا ایک سرا اوپر کی طرف ہوتا ہے اسکی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب موچھوں  کی طرح لمبے لمبے بال ہوتے ہیں ۔ جبکہ ویل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں۔اکثر ا سے شکار پکڑنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ اس کا  بس اپنا بڑا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے جس سے بے شمار مچھلیاں آبی  جانور اپنے آپ اس کا چارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں 

Scientific Research On The Story of Hazrat Younus A.S

اور اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے تو نیلی ویل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن چھ پونڈ کے لگ بھگ  ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے  دوستو! ویل کا منہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس پچیس آدمی  ایک ہی ساتھ  بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کا منھ بہت بڑا اور وسیع ہوتا ہے جس سے یہ ایک انسان کو باآسانی نکل سکتی ہے اور بعد میں اسے اُگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔اس کے حلق میں  جھریاں ہوتی ہیں اور جب اس سے معمول سے زیادہ چیز نگلنا پڑ جائے تو جھریوں کے کھلنے سے اسکا منہ وسیع تر ہو سکتا ہے ۔اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیا کو بآسانی نگل سکتی ہے۔

دوستو! اقرآن پاک کی تین سورتوں میں حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لینے کا واقعہ  بیان ہوا ہے بعض  ماڈرن حضرات اس واقعے کی اصلیت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں  کہ آخر آپ علیہ السلام اتنے دن تک بغیر کھائے پیئے کس طرح زندہ رہے لیکن بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ عقل سے برتر ہوتے ہیں ۔ جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران رہ جاتے ہیں اور ان کو معجزہ  بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی محدود عقل میں نہیں آتے ۔لیکن بحر حال یہ ایک حقیقت ہے اور اسی حقیقت کے تناظر میں یہاں چند واقیعات بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اموز جان ونسن نے حضرت یونس ؑ کے مچھلی کے پیٹ کے بارے میں ایک تھیو لوجیکل آرٹیکل پیش کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی اکسیجن  ہو تی ہے۔جو کسی جاندار کو زندہ رہنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ  کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ہے جو انسان کے لیے بخار کا درجہ ہے ۔ 1890   میں ایک جہاز فوک لینڈ کے قریب مچھلی کا شکار کر رہا تھا اسکا ایک  شکاری سمندر میں گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ویل مچھلی نے اسے نگل لیا ۔بڑی کوشش کے بعد دو روز بعد یہ مچھلی پکڑی اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ تھا۔ البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہو گیا تھا اور 14 دن کے علاج  کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔

Scientific Research On The Story of Hazrat Younus A.S


 اس کے علاوہ 1958 میں ستارہ مشرق نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا اس کاایک بارکلے نامی ایک ملاح سمندر   میں گرا جسے ایک مچھلی نے نگل لیا ۔پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا کے مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی پیٹ چیرا تو ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا ۔اس نے اپنی آپ بیتی سنائی ۔کہ جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں  شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی ہیں تھی میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا اچانک مجھے ایک  تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک تاریک  تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس اس کی کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ ایک وسیع تر جگہ میں ہوں اردگرد نرم نرم  اور چکنی دیواریں کھڑی ہیں ۔ میں نے حقیقت محسوس کی کہ میں ایک ویل مچھلی کہ پیٹ میں ہوں۔اطمنان حاصل کیا اور موت کرنے کے لئے تیار ہونے لگا ۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا سانس لینے پر ہر بارایک عجیب سی حرارت  میرے اندر دوڑ جاتی۔ آہستہ آہستہ  کمزور ہوتا چلا گیا اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا اس کے بعد  مجھے کچھ معلوم نہیں ۔اب کہ جو  میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا ۔بارکلے کو ہسپتال مین میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں اس خبر نے  تہلکہ مچادیا ۔کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنس دان ایم ڈی کال نے مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد لکھا کہ اس  حقیقت کےعیاں  ہونے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حرف با حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے ۔ دوستو! اگر آپ کو یہ معلومات اچھی لگی ہوں تو  اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔