شیطان سے ملنے کی سچی کہانی ۔
اسلام علیکم
قارئین کرام! اس وقت دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جنہیں شیطان کے
پجاری یاں فری میسن کہا
جاتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو پوری
طرح شیطان کے حوالے کرچکے ہیں اور پھر یہ وہی کرتے ہیں جو شیطان ان سے چاہتا ہے پھر چاہے وہ کسی کو قتل کرنا ہویا کسی
کے دماغ کو قابو میں کر کے ان کی رو حوں سے
ملاقاتیں کرنا۔۔۔ ان کے لیے سب جائز ہوتا ہے۔۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا یہ واقع ہی یہ کسی انسان کو مرے ہوئے شخص سے ملا سکتے ہیں؟
اور اگر ملوا نہیں سکتے ہیں تو پھر یہ سب کیسے
ممکن ہے؟
اس آرٹیکل میں ہم آپ کو ایسا سچا واقعہ بتانے جا رہے ہیں
جو آپ کے ہوش اڑا دے گا ۔اور اس میں آپ کو بہت سارے سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔
قارئین کرام یہ جنگ عظیم دوئم کے
زمانے کی بات ہے جب امریکن نیوی میں راجر نامی ایک شخص نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا کہ ایک
دن اس کے پاس اس کا افسر آیا جس نے اس ملک کے لیے خدمات دینے پر سراہا اور پھر کہا کہ آج رات میرے گھر میں ایک پارٹی ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ تم بھی
اس پارٹی میں شرکت کرو۔
اس کے جواب میں راجر نامی شخص نے اس نے کہا کہ اس پارٹی میں ایسا کیا ہوگا تو اس
افسر نے کہا کہ ایسی پارٹی ہوگی جس میں تم اپنے مرے ہوئے ماں باپ سے ملاقات کر سکو گے۔راجر بتاتا ہے کہ میں نے سوچا کہ ایسےبھلا کیسے ممکن ہے؟ اس لیے میں نے زور دار قہقہہ لگایا
اور کہا کہ سر یہ تو ناممکن ہے ۔لیکن وہ افسر اپنی بات پر قائم رہا اور اس نے ایک مرتبہ
پھر کہا کہ سچ میں تمہاری ملاقات تمہارے مرے ہوئے والدین سے کروا سکتا ہوں ۔راجر بتاتا ہے کہ یہ سن کر میں ڈرگیا۔ اور کچھ وقت کے لئے
مجھے لگا کہ یہ میرے سامنے کھڑا ہوا شخص بالکل پاگل ہو چکا ہے ۔جسے علاج کی ضرورت ہے لیکن
اسی دوران وہ پھر سے کہنے لگا کہ شاید تم ڈر گئے ہو مگر مجھے نہیں لگتا کہ تم اتنے ڈر پوک
ہو۔راجر کہتا ہے کہ اس کی یہ بات سن کر میرے
اندر جوش آگیا۔ اور میں نے کہا کہ ٹھیک ہے سر۔ میں آپ کی پارٹی میں ضرور آؤں گا ۔لہذا
رات ہوئی اور میں تیار ہو کر اس پارٹی میں جا پہنچا ۔اور جب میں وہاں گیا تو میں
نے دیکھا کہ ملک کے تمام مشہور لوگ وہاں موجود تھے۔ اور وہاں سٹیج پر ایک
ایسی لڑکی موجود تھی جس نے بڑا سا برقع پہن رکھا تھا جبکہ اس لڑکی کی شکل اور حرکات کافی خوفناک معلوم ہو رہی تھیں۔ اور اس کے ناخن بھی کافی لمبے تھے ہیں جب کہ وہ لوگوں کی خواہش
پوری کررہی تھی راجر کہتا ہے کہ میں وہاں
ایک جگہ بیٹھ گیا اور بڑے غور سے سارا ماجرہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن مجھے صرف یہی بات سمجھ میں آئی ،کہ جب بھی کوئی
لڑکا یہ لڑکی اس کے پاس جا کر اپنی کوئی خواہش
بتاتے ۔تو وہ اسے بالکل ویسے ہی پورا کر دیتی۔
راجر نے بتایا کہ کچھ دیر بعد اس کے سامنے ایک لڑکی ہے
جس نے کہا کہ مجھے اپنے مرے ہوئے دوست سے
ملنا ہے جو ایکسیڈنٹ میں آج سے دو سال پہلے مر گیا تھا اور میں اسے اچھے سے گڈ بائے نہیں کرسکی تھی اس لڑکی کا اتنا ہی
کہنا تھا کہ اچانک پردے کے پیچھے سے نکل کر ایک بندہ ہمارے سامنے آگیا جسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیونکہ میں زندگی میں یہ سب پہلی بار دیکھ رہا تھا بحر حال
وہ عورت اس سے بات کر رہی تھی اور ساتھ میں
روتی جا رہی تھی ۔راجر کہتا کہ اس کے بعد
میری باری آئی ہے لیکن میں یہ سب دیکھ کر میں کافی ڈرا ہوا تھا اس لئے میں نے کانپتی
ہوئی آواز میں اس سے کہا کہ مجھے اپنے
والدین سے ملنا ہے جو کچھ سال پہلے اس دنیا سے جاچکے ہیں۔ اور میں یہ دیکھ کر حیران
رہ گیا کہ کچھ ہی سیکنڈ کے بعد میرے والدین میرے سامنے موجود تھے اور میں نے ان سے
بات کی میں رونے لگا اور کہنے لگا کہ میں
آپ کو یاد کرتا ہوں ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔لیکن یہ ملاقات چند منٹ تک جاری رہی اور پھر
میرے ماں باپ مجھے الوداع کہتے ہوئے پردے کے پیچھے چلیں گئے ،جس کے بعد وہی افسر میرے
پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ یہ سارے
لوگ میرے گروپ کے ممبر ہیں اور میں چاہؤں گا کہ تم بھی اس گروپ کو جوائن کر رہا
ہوں جس کا نام فری میسن ہے ۔
اور اگر تم اس گروپ کو جوائن کر لیتے
ہو تو تمہیں بہت سارا پیسہ اور طاقت بھی ملے
گی جو ساری زندگی تمہارے کام آئے گی۔
راجر اپنے انٹرویو میں مزید بتاتے ہیں کہ ہماری
گفتگو ایسے جاری رہی اور پھر اچانک اس افسر نے مجھے بتایا کہ ہمارے پاس ایک بندہ آتا
ہے جو ہمیں ہیڈ (گائیڈ) کرتا ہے اور ہمیں اس دنیا میں رہنے کا طریقہ بتاتا ہے لہذا اس بار
جب وہ آیا تو میں تمہیں بھی اس سے ضرور
ملواوں گا ۔راجر کہتا کہ آخر وہ دن آ ہی گیا ، جس دن اس شخص نے وہاں آنا تھا لہذا میں بھی وہاں چلا گیا اور دیکھا کہ وہ شخص سارے گروپ کو مختلف
ہدایات دے رہا ہے اور ان کو آئندہ کے
لائحہ عمل سے بھی اگاہ کر رہا ہے اور مجھ
سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ۔
کہ’’
راجر میں تب سے ہوں جب سے دنیا بنی ہے۔
اور میں نے جنگیں اور بہت کچھ دیکھ رکھا ہے
میں سیاست کو سمجھتا ہے ۔اور میں ہی وہ شخص ہوں جو قیامت تک زندہ رہوں گا اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہدایت بنوں گا لہذا تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم میرے
ساتھ دوستی رکھو جس کے بدلے میں میں تمہیں طاقت شہرت اور پیسہ دوں گا۔ وہ سب کچھ
دونگا جو تم چاہتے ہو لیکن اگر تم میرے نظریے کے خلاف چلنا چاہتے ہو اور مجھ سے
دشمنی رکھنا چاہتے ہیں تو یہ تمہارے لئے بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا ۔‘‘
راجر کہتا ہے کہ یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے بائبل سمیت مختلف کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ تانکہ میں جان سکوں کہ۔۔۔۔۔
آخر یہ سارا ماجرہ ہے کیا؟
اور یہ پاگل شخص کون ہونے کا دعویٰ
کر رہا ہے؟
لہذا ایک لمبی تحقیق
کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ب لوسیفر اور اس شخص میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ لہذا
اگلی میٹنگ کے دوران جب میں اس کے سامنے
گیا تو میں نے اس سے سوال کیا کہ
کیا تم لوسیفر ہو؟
جس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں میں ہی لوسیفر ہوں ۔ اس کا
جواب سن کر میں چونک اُٹھا اور میرے
ذہن میں اس سے متعلق سینکڑوں سوالوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ لہذا سب سے پہلے میں
نے اس سے پوچھا کہ تم یہ سب کیا کر رہے ہو؟
اور کیوں کر رہے ہو؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں یہاں کا خدا ہوں جو سارے نظام
کو سنبھالے ہوئے ہے لہذا میں جیسا چاہوں
گا ویسے ہی ہوگا۔ اور آج تک مجھے کوئی بھی روک نہیں سکا ۔ راجن مزید بتاتا ہے کہ اس کی زبان اور باتوں نے مجھے مزید
الجھن میں ڈال دیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟
تو اس شخص نے مجھے بتایا کہ ہندو ازم سے لے کر عیسائیت تک دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی طرح میری عبادت کر رہے ہیں ۔ اور
میں ہی وہ شخص ہوں نے جس نے کائنات بننے
سے پہلے ہی ان مذاہب کو ترتیب دیا تھا ۔اور راجر کہتا ہے کہ مجھے ایک دفعہ پھر ایسے محسوس ہوا
جیسے میں کسی ذہنی مریض سے بات کر رہا ہوں جس کے دل میں جو آتا جا رہا ہے وہ بول رہا ہے لہذا میں نے طنزیہ مسکراتے ہوئے پوچھا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا
ہے ؟کہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب تمہاری عبادت کرتے ہیں جس پر اس نے کہا کہ تم نے
اکثر چرچز میں دیکھا ہوگا کہ جس جگہ عیسائی عبادت کرتے ہیں
اس جگہ کے پیچھے سے سورج نکل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر تم ہندووٗں کے تمام خداؤں کو دیکھ لو۔ تو ان کے پیچھے سے
بھی ایک سورج نکلتا دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ تم فیرو کو دیکھ لو جس کے خدا ہورس کے پیچھے سے بھی ایک سورج نکلتا ہوا نظر آتا ہے ۔
اور تم جانتے ہو کہ سورج اصل میں میری
نشانی ہے اور روزانہ میری اجازت سے میرے پیچھے سے ہی سورج نکلتا ہے ہے لہذا ثابت
ہوا کہ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کہیں نہ کہیں میری ہی عبادت کرتے ہیں ۔آخر میں یاد رہے کہ اللہ
تعالی ٰ نے شیطان کو یوم معلوم تک چھوٹ دے دی ہے او ر یہ اسی طرح اپنی راہ پر چلنے
والے بندوں کو اپنا غلام بنا کر اپنے مقاصد پورے کرواتا ہے لیکن اللہ کے نیک بندے
اس کے بہکاوے میں نہیں آتے ۔ اس کے بعد راجر نے انٹرویو میں مزید بتاتا ہے کہ اس
شخص کے مطابق اس نے انسان کو بنایا اور ڈارون تھیوری بھی اسی کی تھی راجر آخر میں
بتاتا ہے کہ یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد میں بہت گھبرا گیا اور اس کے ساتھ گفتگو
ختم کرکے فورا گھر لوٹ آیا۔ قارئین کرام اس پُر فتن دور میں جہاں ہر طرف سے شیطانیت اپنے
عروج پر ہے ۔ جس دور کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخری زمانے میں
ایمان کی حفاظت کرنا اتنا مشکل ہوگا جیسے ہاتھ پر انگارہ رکھنا۔۔۔
لیکم اللہ کی رحمانیت
،شیطان کی شیطانیت سے بڑی ہے بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت اپنے رحم و کرم
کے حصار میں رکھے۔ آرٹیکل پسند آیا ہو تو اپنے چاہنے والوں سے ضرور شیئر کریں۔
Post a Comment
Post a Comment