What Was Allah Doing Before Creation Of Universe ? in Urdu
اسلام علیکم قارئین کرام!
دوستو! کسی بھی دین کو نہ
ماننے والے ایتھیسٹ جن کا ماننا ہے کہ انسان کا پیدا ہونا اور پھر مر جانا یہ محض ایک اتفاق ہے جیسے دنیا کے باقی
جانور اور پودے ۔۔۔اور کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔۔۔ بلکہ غیر مسلم بھی اس سوال کو ہتھیار کے طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے
لیے ہمیشہ ان سے کرتے رہتے ہیں ۔کہ
اس کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے جب کوئی بھی زندہ
چیز موجود نہیں تھی تب اللہ تعالیٰ کیا کر رہا تھا ؟
اب اگر دیکھا جائے تو یہ بہت
ہی انسانی سوچوں کو اور دماغوں کو ہلا
دینے والا ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ ملنے پر انسان خود سے اس کے جوابات تلاش
کرنے کی کوشش کرے گا اور آخر کار اس کا اللہ تعالیٰ پر یقین اور ایمان مسلسل کمزور ہونے لگے گا۔ کیونکہ اس کا دماغ خود سے اس کو جواب بنا کر دے گا جو کہ اِسے
گمراہ کر سکتے ہیں ۔ لیکن دوستو ایک لائن
میں یا آسان الفاظ کے اندر میں آپ کو اس کا جواب سمجھانا چاہو ں تو اس کا جواب یہ ہے کہ
ٹائم بذات خود اللہ تعالی کی
تخلیق ہے۔ ٹائم کو بذات خود اللہ تعالی ہی نے پیدا کیا بالکل ایسے ہی جیسے اللہ تعالی نے موت
کو پیدا کیا اسی لئے اللہ تعالیٰ کی
پیداکردہ تخلیق اس کی مخلوق ہے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کا حکم کے تابع ہے کیونکہ
خالق اپنی تخلیق کا غلام تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علاوہ مزید ٹائم کو
سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کی نیچر کو سمجھنا ہوگا ۔
What Was Allah Doing Before Creation Of Universe ? in Urdu
ہماری دنیا میں عام طور دیکھنے پر تو یہی لگتا ہے کہ وقت ہر ایک کے لیے یعنی کہ دنیا کے ہر انسان کے لئے اور اس
پوری کائنات کے لئے بالکل ایک طرح سے گزر
رہا ہے ۔
لیکن آج کی سائنس یہ کہتی ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ ٹائم ہے ریلیٹو ہے یعنی کہ یہ دو لوگوں کے لئے بالکل الگ
الگ طرح سے کام کرتا ہے ۔ آئن سٹائن کی
تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق ٹائم اور اسپیس کے اندرایک ریلیشن (تعلق) موجود ہے کیونکہ
سپیس میں جانے پر وقت بالکل مختلف طریقے
سے behave کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر آج میں کس جگہ پر جانے
کے لیے سفر کا ارادہ کرتا ہوں جہاں تک پہنچنے میں مجھے ایک گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
لیکن اگر اسی سفر کو میں ایک سائیکل پر
بیٹھ کر طے کرنے کی کوشش کرو تو اسی سفر
میں مجھے تیس منٹ لگیں گے۔ اسی طرح سے اگر
یہ سفر دنیا کی سب سے تیز رفتار گاڑی کے اندر کیا جائے تو وقت میرے لیے مزید آہستہ
ہو جائے گا یعنی کہ یہ سفر بہت جلدی طے کر
لوں گا۔ اسی طرح سے اگر میں یہ سفر جہاز پر کروں تو میرے لئے ٹائم اور کم ہو جائے گا اور اگر میں یہی ترتیب برقرار رکھو ں ،اور دنیا کی سب سے تیز رفتار یعنی اسپیڈآ ف لائٹ سے
سفر کروں تو میرے لئے وقت مکمل طور پر رک جائے گا ۔یعنی کہ وقت اور ٹائم بالکل ریلٹو ہیں جو آپ کی
حرکت پر یا آپ کی مومنٹ پر ڈپنڈ کرتا ہے ب۔الکل
اسی طرح سے اگر میری سپیڈ، اسپیڈآ ف لائٹ
سے بھی زیادہ بڑھ جائے۔ تو میرے لئے وقت بالکل ایگزسٹ(موجود ہی نہیں ہوگا) یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ خود کو وقت سے آزاد کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسپیڈآ ف لائٹ سے بھی زیادہ کرنی حرکت کرنا پڑے گی۔ اتنی تیز رفتاری سے حرکت کرنا
تو انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن
اللہ تعالی کی ذات اس پر قادر ہے ۔کیونکہ یہ وہ واحد ذات ہے جس پر وقت اپلائی ہی نہیں ہوتا ۔
سورہ الانعام آیت 62 کے اندر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔
ثُـمَّ رُدُّوٓا اِلَى اللّـٰهِ مَوْلَاهُـمُ الْحَقِّ ۚ اَلَا
لَـهُ الْحُكْمُ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِيْنَ (62) ↖
پھر اللہ کی طرف پہنچائے جائیں گے جو ان کا سچا مالک ہے، خوب سن لو
کہ فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور بہت جلدی حساب لینے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کے اندر لفظ’’ سب سے جلد ‘‘کا استعمال کیا گیا ہے یعنی کہ سب سے تیز رفتار کا جو پوری کائنات کے اندراگزسٹ کرتی ہے ۔ بس اللہ
تعالیٰ کے لئے وقت یا ٹائم بالکل صفر ( زیرو) ہے اور وہ رفتار میں بالکل ایبسلیوٹ
(مطلق) ہے اِس ذات کے لئے نا تو وقت موجود ہے اور نہ ہی اس کے لیے وقت گزر
رہا ہے ۔کیونکہ وقت خود ہی اللہ تعالی کی تخلیق ہے جس پر اسے مکمل کنٹرول ہے ۔ ہم صرف انسان وقت
کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ وقت نے ہمیں
محدود کر دیا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو کوئی بھی انسان کبھی نا مرتا۔اور نا ہی اس کی عمر گزرتی۔
تو اب سوال یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کا حساب بھلا کب اور کیسے دیتا ؟ اس لیے شروع سے لے کر آخر تک کے
یعنی ازل سے لے کر ابد تک کے الفاظ صرف استعمال ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالی کی ذات
کا نہ تو کوئی آغاز ہے اور نہ ہی اختتام ۔کیونکہ آغاز اور اختتام تو ایسی چیز کا
ہوتا ہے جس کے لیے وقت موجود ہو۔
پس لوجیکلی یہ سوال ہی غلط ہو
جاتا ہے کہ اللہ تعالی اس کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے کیا کر رہا تھا ؟
جب ہم وقت کو گزرتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ اس کا
مطلب ہے کہ ہم ماضی سے حال اور پھر مستقبل میں جا رہے ہیں۔ اگر ہر ایک مومنٹ کوایک تصویر کی صورت میں ایک سیریز
کے اندر جوڑا جائے تو وہ ایک مومنٹ یا
ویڈیو کلپ بنتا ہے ۔جیسا کہ ہم انسان زمین پر تصویروں کو جوڑ کر ہر سیکنڈ کے اندر
تیس یا ساٹھ مرتبہ دیکھا کر اسے ایک ویڈیو
کے اندر بدل دیتے ہیں ۔اسی طرح زمین کا ہر لمحہ اور پوری
کائنات میں گزرنے والا ہر لمحہ اس پوری کائنات کے آغاز سے ہی شروع ہوا یعنی آاسان میں یوں کہوں کہ وقت کا آغاز اس کائنات کے آغاز سے ہی ہوا ۔اس کائنات کےبننے سے پہلے ٹائم جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی۔ یعنی کہ دنیا میں
بھی ہم انسانوں کا ٹائم گزر رہا ہے وہ ماضی تو بن رہا ہے لیکن ختم نہیں ہو رہا۔
اور اسی طرح سے ہمارا مستقبل بھی موجود ہے
یعنی یہ سمجھیں کہ پورا کا پورا روڈ ( سڑک
) ہے جس کے درمیان میں ہم موجود ہیں ہمارے پیچھے ماضی ہے اور ہمارے سامنے مستقبل موجود ہے ۔یعنی کہ ہم وقت کی طرف سے قید میں ہے
کہ اس روڈ سے گزرتے ہوئے ہم صرف سیدھا آگے کی طرف ہی حرکت کریں گے پیچھے
نہیں جا سکتے ۔لیکن ایک ایسی ذات کے بارے میں سوچیں کہ جس پر وقت بالکل اپلائی نہیں ہوتا اور ہمیں اس روڈ (سڑک )کے اوپر سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی پہنچ ہمارے
ماضی پر بھی ہے اور مستقبل پر بھی ۔ اس کے سامنے ہمارا سب کچھ موجود ہے کیونکہ
اُس ذات کے لئے وقت موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایگزسٹ کرتا ہے۔ اور یہی
وجہ ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ماضی ہمارے مستقبل اور ہمارے حال تینوں سے واقف ہے ۔
What Was Allah Doing Before Creation Of Universe ? in Urdu
اب یقیناً بہت سارے لوگوں کے ذہنوں کے اندر یہ سوال پیدا
ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کی ذات کے لئے وقت موجود ہی نہیں ہے تو پھر اللہ
تعالی نے قرآن پاک میں کئی جگہوں پر وقت کا ذکر سالوں میں یا دنوں کے اندر کیوں کیا ہے ؟
مثال کے طور پر اللہ تعالی
نے اس کائنات کو پیدا کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو
چھ دن کے اندر پیدا کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف انسانوں کو ہماری عقل کے
مطابق سمجھانے کے لیے ہے کیونکہ ہمارے لئے
زمین پر وقت گزر رہا ہے اس لئے مثال کے طور پر سورہ فصلت کے اندر اللہ تعالی نے
زمین کے پیدا کرنے کے بارے میں دو دن کا وقت بیان کیا ہے ۔مگر سورہ الاعراف کے اندر اس پوری کائنات کو پیدا کرنے کا وقت چھ
دن کا بیان کیا ہے ۔ اگر ان دونوں قرآنی آیات کو جوڑ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ
زمین پوری کائنات سے تین گنا زیادہ جوان ہے یا پھر یوں کہیں کہ زمین ہماری اس پوری کائنات کے پیدا ہونے کے بعد تین گناہ
زیادہ وقت گزرنے کے بعد پیدا ہوئی ۔ اب اس آیت مبارکہ کے اندر خاص طور پر زمین کی عمر کے بارے میں بیان کرنا بلا وجہ نہیں
ہے بلکہ مصلحت کی وجہ سے ہے۔کیوں کہ حالیہ
سائنسی تحقیقات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہماری پوری کائنات پر 13.5
بلین سال پہلے وجود میں
آئی۔لیکن ہماری زمیں کو بنے ہوئے 4.5 بلین سال ہی ہوئے ہیں جب ہمارا سولر سسٹم اور زمین پتھروں اور دوسرے شہاب ثاقب کے ٹکراو کے بعد
بننے لگے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ سائنسیٹسٹ
اسے پہلے یہ مانتے تھے کہ ہماری زمین تقریبا 30 ملین سال پرانی ہے لیکن زمین کی
اندرونی تہہ جسے ہم ’’مینٹل ‘‘کہتے ہیں اس سے ملنے والے نمونوں کے جب ٹیسٹ کئے گئے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہم انسان کس قدر غلط تھے جو
کہ ہماری زمین کی اصل عمر تقریبا 4.5 بلین سال بنتی ہے ۔
What Was Allah Doing Before Creation Of Universe ? in Urdu
لیکن آج سے چودہ سو سال پہلے
نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید کے اندر اس پوری کائنات کی اور زمین کی اصل عمر کو بیان کر دیا گیا کہ ہماری یہ زمین اس پوری
کائنات کی عمر سے تھری ٹائمز جوان ہے یعنی
کہ پوری کائنات کا تین گنا وقت گزرنے کے
بعد بنی ۔ بے شک اللہ تعالی کی ذات سب جانتی ہے اور اس وقت جب کوئی بھی جن و انسان
موجود نہیں تھے اس کائنات کے سارے process کے بارے میں صرف وہی ذات بیان کر سکتی ہے جو کہ اسے بنانے والے ہو
یا پھر اس وقت پر موجود ہو اور وہی تو ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات۔
مجھے امید ہے کہ اس ارٹیکل سے آپ کو بہت کچھ جاننے کو ملا ہوگا اور
آپ کو پسند آیا ہو گا اگر آپ کو یہ اچھا
لگا تو اسے اپنے جاننے والوں کے ساتھ ضرور
شئیر کریں۔
Post a Comment
Post a Comment