شیطانی وائرس شکلیں بدلتے رہتے ہیں:

 ضمیر نامی سوفٹ وئیر، وائرس الرٹ دے سکتا ہے، وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں برائی سے روک نہیں سکتا ۔ یہ کام انسانی عقل کو ودیعت کیا گیا اور انسان کو اس کے لیے ضروری صلاحیتوں سے لیس

کیا گیا ہے۔

شیطانی وائرسوں کی مثال فلو کے وائرس جیسی ہوتی ہے۔ فلو کی بیماری اس لیے دیر سے ختم ہوتی ہے کہ فلو کا وائرس اپنا میک آپ (حلیہ ) بدلتا رہتا ہے۔ یہ اپنی شکل بدلنے کا ماہر ہوتا ہے اس لیے جسم کا دفاعی نظام اور ادویات کے اثرات اسے پہچان نہیں پاتے ، اسی لیے اسے فوری طور پر فتا بھی نہیں کر پاتے ۔

شیطانی وائرس بھی اکثر اسی طرح شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔ نفس کا دفاعی نظام خیر وشر کے درمیان تمیز نہیں کر پاتا۔ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ کوئی نیکی سرانجام دے رہا ہے، یاکسی بدترین

گناہ میں مبتلاء ہے۔ نفس کا ایک ایسا ہی وائرس ہے خود پسندی“۔ یہ وائرس عام طور پر بے جا تعریفوں اور اپنی چھوٹی سی نیکی کو بڑا سمجھنے کے سبب جنم لیتا ہے اور فوری طور پر نفس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ متاثرہ شخص بہ ظاہر ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ وہ خود بھی اپنے آپ کو مکمل صحت مند اور تن درست محسوس کرتا ہے لیکن بڑے خطرات سے دو چار ہوتا ہے۔ اکثر اوقات وہ اپنے ظاہر کو تقدس کے لبادے سے آراستہ کرتا ہے۔ رکھ رکھاؤ اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتا ہے۔ دوسروں کی با تیں سنتا ہے لیکن خود کو عقل کل کے مرتبے پر فائز سجھتا ہے۔ اگر چہ اس وقت اس کی عقل نہیں بلکہ اس کا نفس اسے آپریٹ کر رہا ہوتا ہے۔ بعض شیطانی وائرس کسی اور طرح نفس کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثلاً کوئی وائرس ایسا ہو سکتا ہے کہ صبح کو میری آنکھ بھی نماز فجر کے اول وقت کھل جائے اور میں اذان کی آواز بھی سنتا رہوں اور سوتا بھی رہوں اور اذان کی آواز ختم ہوتے ہی سکون کا سانس لے کر دوبارہ گہری نیند میں چلا جاؤں۔ جب ایسا بار بار ہونے لگے تو روح جو جسم کا آپریٹنگ سسٹم ہے وہ ضمیر نامی سوفٹ وئیر کو استعمال کرتی ہے اور آپ کے دماغ کی اسکرین پر  software up date  یا  Low connectivity  کے سگنلز آنے لگتے ہیں۔

یہ روحانی حالت بہت خطرناک ہوتی ہے:

یہ لوکنیکٹی وٹی کی حالت بہت تکلیف دہ اور سخت خطر ناک ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے رابطے کے لیے جس "سرور" کی سہولت آپ کو دی گئی تھی ، وہ سہولت عارضی طور پر منقطع کردی گئی ہے۔ اس حالت میں زیادہ دیر گزرے تو ہم اور آپ رحمانی و روحانی نیٹ ورک سے کٹ جاتے ہیں۔ ضمیر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ خیر وشر کی تمیز مٹنے لگتی ہے۔ اس تنہائی کے عالم میں شیاطین کو خوب کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ ایسے شخص کو اچھی طرح ذلیل و خوار کر کے چھوڑتے ہیں۔ اس تنہائی سے فوری باہر نکلنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے آپ کو اپنا پورا سسٹم فارمیٹ کرنا ہوتا ہے۔ سٹم کو فارمیٹ کرنا زیادہ مشکل کام نہیں۔ قرآن کی تلاوت ، حکیمانہ جملے، علماء کی صحبت ، مسجد میں نماز کے وقت سے ذرا پہلے مجرموں کی طرح جا کر بیٹھنا، استغفار اور درود کثرت سے پڑھنا سجدے میں گرنا اور جب نمازی جمع ہو جائیں تو ان کے درمیان جگہ بنا کر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ۔ پھر جب بہت سارے مومین دعا کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنی اوقات کو سمجھنا۔ جب مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے تو میں تو یہی کرتا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ میرا مالک بہت مہربان ہے جب وہ مجھے اپنے اتنے سارے نیک بندوں کے درمیان شرمندہ وشر مسار دیکھے گا تو اس کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ مجھے معاف نہ کرے۔

اس حالت سے نکلنے کا ایک اور طریقہ:

https://hmariupdates.blogspot.com/
https://hmariupdates.blogspot.com/


اس لو کنیکٹی وٹی یعنی روحانی پسماندگی سے نکلنے کا ایک اور بھی بہت آزمودہ نسخہ ہے۔ وہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت سے توسل اختیار کرنا۔ "ہم نے کسی رسول کو بے سبب نہیں بھیجا مگر صرف اس لیے کہ حکم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر یہ لوگ بھی اس وقت جب انہوں نے اپنے ( نفسوں) پر ظلم کیا تھا، اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے طلب مغفرت کرتا تو یہ ( لوگ ( یقینا اللہ کو تو بہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔“ (سور النساء: آیت (۶۴)

اس تو سل کے لیے بہترین جگہیں مساجد ہیں۔ مسجد میں جا کر کسی کونے میں بیٹھ کر دعائے توسل پڑھیے۔ خود کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت کے سامنے حاضر و ناظر تصور کیجیے۔ دعائے توسل کے بعد سجدے میں جا کر آنسو بہائے ۔ سجدے سے اٹھ کر بیٹھیں تو کثرت سے درود پڑھیں اور ہاتھ جوڑ کر کہیں ۔ " ليس لى وَالله وَ وَراء کم یا سادَتی منتهی“

میرا کوئی کوئی نہیں ہے، سوائے اللہ کے اور آپ کے۔ اے میرے سردارو!

کتاب کا نام(رب العالمین،دعا اور انسان)مصنف محمد علی