Teen Mint Qiyamat men. Three mints in the Day of Judgement (Real Story) |
Teen Mint Qiyamat men. Three mints in the Day of Judgement (Real Story) |
میں نے اس صحرا میں دکھائے جانے والے واقعات میں بعض مرحوم رشتہ
داروں اور جاننے والوں کا بھی دیدار کیا۔ ان میں سے ایک میرے چھا بھی تھے۔ خدا ان
کی مغفرت فرمائے ، وہ ہاسپٹل میں بھی آپریشن کے دوران میرے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے
دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑے باغ میں ہیں۔ میں نے پوچھا: "چا جان! یہ خوبصورت باغ
آپ کو کس عمل کے بدلہ میں ملا ہے ؟" کہا: ” میں اور تمہارے والد بچپن میں یتیم
ہو گئے تھے، تمہارے دادا نے میراث میں ایک بڑا باغ چھوڑا تھا۔ ایک شخص آیا اور طے
پایا کہ وہ ہمارے باغ میں کام کرے گا اور باغ سے جو بھی نفع حاصل ہو اوہ ہماری
والدہ کو دے گا۔ لیکن اس نے چند لوگوں سے مل کر بغاوت کی اور وہ باغ ہم سے چھین لیا،
پھر ان سب نے باغ بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کرلی۔ ان میں سے کسی کی بھی عاقبت بخیر
نہیں ہوئی، وہ سب بر زخ میں پھنسے ہوئے میں کیونکہ مال یتیم کے ساتھ ظلم کیا۔ جو
باغ دنیا میں ہم سے چھین لیا گیا تھا، اس کے بدلہ میں ہمیں یہ باغ دیا گیا ہے تاکہ
اللہ کی مدد سے اپنے اصلی باغ کی طرف جائیں۔ “ پھر باغ کے دوسرے دروازے کی طرف
اشارہ کر کے کہنے لگے: اس باغ کے دو دروازے میں، ان میں سے ایک دروازہ تمہارے والد
کیلئے ہے۔ وہ عنقریب گھل جائے گا۔ انشاء اللہ " چا کے باغ کے قریب ایک اور
باغ تھا جس کے اندر کی ہریالی بے مثال تھی۔ یہ باغ ہمارے ایک رشتہ دار کا تھا،
انہوں نے ایک بہت بڑا وقت کا کام کیا تھا جس کے نتیجہ میں انہیں یہ باغ ملا۔ میں
اس باغ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک پورا باغ مبل کر راکھ میں تبدیل ہو گیا۔ میرے
رشتہ دار بڑی حسرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ میں نے ان سے باغ کے جلنے کی وجہ پوچھی
تو کہنے لگے کہ یہ بلا و مصیبت میرے بیٹے کی وجہ سے مجھ پر پڑی ہے جو اجازت نہیں دیتا
تھا کہ اس وقف شدہ زمین کی خیرات یا ثواب مجھ تک پہنچے۔ انہوں نے یہ بات پھر دہرائی
تو میں نے پوچھا اب کیا کرنا ہو گا؟ وہ بولے : " تھوڑا عرصہ تو لگے گا کہ اس
خیرات و ثواب کے نتیجہ میں میر اباغ آزاد ہوا لیکن ڈر ہے کہ میرابیٹا اسے تباہ نہ
کر دے۔ " میں جانتا تھا کہ انہوں نے یہ زمین وقف کر رکھی ہے اور ان کا نا اہل
و ناخلف بیٹا کیا کرتا ہے، لہذا میں نے اس موضوع پر مزید بات نہیں کی۔
یہاں (عالم برزخ میں) ہمارے پاس اختیار تھا کہ جہاں چاہیں جائیں
اور جو چاہیں دیکھیں۔ ارادہ کرتے ہی اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ جاتے، بغیر کسی توقف
کے ! میرے پھوپھی زاد بھائی جو دفاع مقدس میں جام شہادت نوش کر چکے تھے ، میں ان
کے مقام و منزلت کو دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ خواہش کرتے ہی میں ایک خوبصورت باغ میں
داخل ہو گیا۔ ( میرے لئے وہاں کے حقائق کو بیان کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ عالم
بالا، ہماری دنیا سے بالکل مختلف ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے اس عالم
کی خوبصورتی کو بیان کر سکوں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے شمالی ایران کے دریا اور جنگل
نہیں دیکھے تو اس کا ذہن اس جگہ کے بارے میں تصور نہیں کر سکتا، اور اگر اس کے
سامنے وہاں کی تصویر کشی کی جائے تب بھی اس کا ذہن خالی رہے گا۔ میری بیان کردہ
روداد بھی ایسی ہی ہے لیکن میری کوشش ہوگی کہ اس کی تصویر کشی اس انداز میں کروں
کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اس سے ملتا جلتا نا کہ بن جائے۔ اس باغ کی انتہا نظروں
سے اوجھل تھی۔ میں سبزے کے درمیان سے گزر رہا تھا جو بہت نرم اور خوبصورت تھا، فضا
پھولوں کی خوشبو سے معطر تھی اور وہاں ہر طرح کا پھل دار درخت موجود تھا۔ درختوں
کے پھل انتہائی چمکدار تھے۔ میں سبزے پر لیٹ گیا ، یوں لگا جیسے نرم پڑوں سے بنا
ہوا بستر ہو ۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور نہر کے پانی کی آواز کانوں میں رس گھول رہی
تھی۔ میرے لئے یہ منظر بیان کرنا ممکن نہیں۔ سر اُٹھا کر دیکھا تو کھجور سے بھرا
ہوا ادرخت نظر آیا۔ خیال آیا کہ نہ جانے یہاں کی کھجور کا ذائقہ کیسا ہو گا، اچانک
درخت نیچے جھکا اور میں نے کھجور کی ایک شاخ تو ڑلی۔ کھجور کا ذائقہ چکھنے پر بے
حد لذیذ محسوس ہوا۔ اگر ہم اپنی دنیا میں حد سے زیادہ میٹھی چیز کھائیں تو منہ کا
ذائقہ خراب محسوس ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ تھا، کھجور جتنی زیادہ میٹھی
تھی، اتنی ہی لذیذ تھی ! میں اپنی جگہ سے اُٹھا تو سبزہ سمٹ کر اپنی جگہ چلا گیا۔
آگے بڑھا تو نہر نظر آئی۔ عموماً ہم نہر کے کنارے پر کیچڑ دیکھتے ہیں اور اس سے بچ
کر چلتے میں کہیں پاؤں گندے نہ ہو جائیں، لیکن اس نہر کا کنارا موتیوں کی طرح چمک
رہا تھا۔ نہر کا پانی اس قدر شفاف تھا کہ اس کی تہ تک سب صاف نظر آرہا تھا۔ دل
چاہا کہ نہر میں کود جاؤں لیکن اپنے پھوپھی زاد کا خیال آیا کہ کہیں اس سے ملاقات
رہ نہ جائے۔ نہر کے دوسری طرف ایک حسین و جمیل سفید محل تھا جو بہت بڑا تھا۔ اس کی
خوبصورتی ناقابل بیان ہے۔ دنیا کے محلات سے یکسر مختلف ! جیسے برف سے بنا ہوا ہو۔
میں نے پچپن میں کارٹون موویز میں ایسے محل دیکھے تھے ۔ محل کی دیوار میں نورانی
تھیں۔ میں محل تک پہنچنے کیلئے کوئی پل تلاش کرنے لگا لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں
پانی پر با آسانی مل سکتا ہوں۔ میں اسی طرح نہر پار کر کے محل تک پہنچ گیا۔ قریب
سے محل کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ جب پھو پھی زاد سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ
اہل بیت علیہم السلام کا ہمسایہ تھا اور یہ کہ اسے آئمہ معصومین علیہم السلام سے
ملاقات کی اجازت تھی۔ یقینا یہ برزخی جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔
علاوہ از میں وہ اپنے شہید احباب
اور رشتہ داروں سے بھی ملاقات کو جاسکتا تھا۔
copied from the book book name is teen minit Qiyamat men
Post a Comment
Post a Comment