روداد زندگی
مجھے احساس ہوا کہ میرا آپریشن کامیاب ہو گیا ہے اور
اب مجھے کوئی تکلیف نہیں میں پرسکون اور ہلکا محسوس کر رہا تھا تھا جسم سے
درد ختم ہو جانے کا احساس انتہائی خوش کون تھا میں نے خود سے کہا پروردگار
کا شکر ہے کہ میں نے شدید سر درد اور آنکھ کی تکلیف سے نجات پا لی۔ اگرچہ میرے
چہرے پر بہت سی مشینیں لگی ہوئی تھی پھر بھی میں سٹریچر سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ دن
تھے جب میں چھوٹا سا اپنی امی کی گود میں تھا اور آج ہاسپٹل کے آپریشن تھیٹر میں
سٹریچر پر پڑا ہوا تھا اس تمام عمر کے مناظر ایک لمحے میں میری نظروں کے
سامنے سے گزرے ۔ کتنا حسین سماں تھا کہ ایک ہی لمحہ میں میں نے اپنے تمام اعمال
دیکھ لئے میں اسی کیفیت میں تھا کہ اپنے بائیں جانب سفید لباس میں ملبوس ایک
نورانی چہرے والے شخص کو دیکھا جو دل میں اتر جانے کی حد تک حسین تھا میرا دل چاہا
کہ اٹھوں اور اسے اپنی آغوش میں لے لوں نہ جانے کیوں اچھا لگا، وہ
نورانی شخص مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا میں اس کی نورانیت میں گم سا ہو گیا اور
سوچنے لگا کہ یہ میرا جانا پہچانا سا ہے شاید میں نے اسے کہیں دیکھا ہے ہے
اتنے میں مجھے اپنے والد محترم، تایاجان اور دیگر لوگ نظر آئے یہ سب کے سب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے تھے انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی میں نورانی شخص پر بھی نظرڈالتا رہا ہے مجھے یاد آیا کہ پچیس برس قبل پر میں نے عالم خواب میں جس شخص سے ملاقات کی تھی وہ یہی تھا یعنی حضرت عزرائیل علیہ السلام میں نے بڑے ادب سے سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا ۔میری نظریں ان کےپرنور چہرے پر جمی ہوئی تھیں کہ انہوں نے کہا چلیں ؟۔۔۔۔میں نے حیرت سے پوچھا کہاں؟۔۔ اتنے میں ڈاکٹرز کی باتوں نے مجھے متوجہ کیا سرجن نے دیگر ڈاکٹرز کو بتایا کہ مریض کا بچنا تقریبا ناممکن ہے اورآپریشن جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ایک اور ڈاکٹر نے برقی جھٹکے دینے والی مشین لانے کو کہا تاکہ مجھے بچانے کی آخری کوشش کی جاسکے حیرت کی بات ہے کہ جن ڈاکٹر کی پشت میری طرف تھی لیکن میں اس کا چہرہ دیکھا اور اس کے ذہن کو پڑھ سکتا تھا بلکہ وہاں موجود ہر شخص کا ذہن کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے تھا میں نے تھیٹر میں لگے تمام مانیٹرز کو دیکھا وہ بند ہوچکے تھے آپریشن تھیٹر سے باہر بیٹھا اپنا بھائی بھی مجھے دکھائی دے رہا تھا جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور مجھے یہ علم بھی تھا کہ وہ کون سا ذکر پڑھ رہا ہے اور کیا سوچ رہا ہے ہے خدا سے دعا مانگ رہا تھا یا اللہ میرے بھائی کو واپس لوٹا دے اس کے دو بچے ہیں اور تیسرا اس دنیا میں آنے والا ہے اگر وہ نہ رہا تو اس کے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟۔۔۔۔ وہ اس لیے زیادہ پریشان تھا کہ میری عدم موجودگی میں میرے حصے کی ذمہ داری کیسے نبھائے گا ایک اور کمرے میں ایک شخص خدا سے میرے بارے میں گفتگو کر رہا تھا مریض کے وارڈ میں میں خدا سے میرے لیے دعا کر رہا تھا میں اسے جانتا تھا اور تھیٹر میں آنے سے قبل اسے رخصت ہو کر آیا شاید اس سے دوبارہ ملاقات نہ ہو یہ غازی خدا کے حضور گڑگڑا رہا تھا کہ اے اللہ مجھے اٹھا لے اسے بچا لے اور اس شخص کو شفا دے دے کیونکہ اس کے بچے ہیں جبکہ میں لا ولد ہوں۔۔۔
مجھے لگا جیسے میں ہر انسان کی نیت اور باطن کو پڑھ
سکتا اور سمجھ سکتا ہوں میں ہر درد سے رہائی پانے کے بعد کافی پرسکون تھا اور بہت
بہتر محسوس کر رہا تھا اس شخص نے دوبارہ مجھے مخاطب کیا چلیں؟۔۔۔۔میں نے کہا
نہیں۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ان کے ساتھ چلنے کا مطلب اس طرح دنیا سے رخصت ہونا
ہے یعنی موت کا وقت آن پہنچا تھا میں شہادت کا آرزو مند تھا اس طرح بیماری کی حالت
میں مر جاؤں؟۔۔۔۔۔ لیکن حضرت عزرائیل کو منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا
مجھے بہرحال جانا تھا تھا اسی وقت دو نوجوان میری دائیں بائیں ظاہر ہوئے اور کہاں
چلیں ؟۔۔۔۔۔میں بے اختیار ان کے ساتھ چل پڑا اگلے ہی لمحے میں نے خود کو اننوجوانوں کے ساتھ ایک بیابان میں پایا یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس دوران وقت ویسا نہیں تھا جیسے عام زندگی میں محسوس ہوتا ہے میں سینکڑوں موضوعات کو دیکھ اورسمجھ سکتا تھا کہ میری موت کا وقت آن پہنچا ہے لیکن میں بہت اچھا محسوس کر رہا تھا
اور میری آنکھ کی تکلیف بھی ختم ہو چکی تھی دو ملائکہ جن کے بارے میں سنا تھا کہ
اللہ کی طرف سے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں میرے تایا اور پھوپھی زاد
کے ہمراہ تھے بڑی دلچسپ صورتحال تھی اب میں ان دو فرشتوں کو دیکھ رہا تھا جن کے
چہرے دل میں اتر جانے کی حد تک حسین تھے میری خواہش تھی کہ ہمیشہ ان کے ساتھ
رہوں ہم ایک خوشک اور آب و گیا صحرا میں چل رہے تھے کہ میں نے کچھ الگ
سا دیکھا یہ کہ میرے سامنے ایک میزتھی اور میں اس کی دوسری طرف ایک شخص
بیٹھا ہوا تھا میں آہستہ آہستہ اس میز کے قریب ہوگیا اپنی بائیں جانب مجھے
سراب سا دکھائی دیا اور اسے دیکھا تو وہاں آگ کے شعلے بلند تھے جن کی تپش مجھے
محسوس ہوئی دائیں جانب توجہ دیں تو وہ ایک بڑا اور خوبصورت باغ تھا جیسے کوئی جنگل
ہو اس طرف سے ٹھنڈی ہوا آرہی تھی پھر میں نے میز کے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو سلام
کیا جس کا اس نے بڑے ادب سے جواب دیا میں سوچنے لگا شاید اس شخص کو مجھ سے کوئی
کام ہے میرے ساتھ موجود فرشتے خاموش تھے میز پر ایک بھاری سی کتاب رکھی ہوئی
تھی.
Post a Comment
Post a Comment